ڈپریشن،ناامیدی،مایوسی اور غم
ترتیب و پیشکش: خالد محموداعوان
٭-”ابسن تھیم“کے مریض کے اندر چوری کا جنون وحشیانہ حد تک پایا جاتا ہے۔قریب ترین واقعات بھول جاتا ہے ۔کسی ایک موضوع پر لگاتار بولتا رہے پایا جاتا ہے۔
٭- ”اگیری کس“ کا مریض نظمیں لکھتا ہے،گاتا ہے، گفتگو کرتا ہے جواب نہیں دیتا۔مختلف موضوعات پر باتیں کرے ۔کام سے نفرت،پیش گوئیاں کرے ۔خوفزدہ ،دوسروں کو نقصان پہنچانا چاہے۔
٭- ”امونیم کارب“ کا مریض اداس بغیر کسی وجہ سے رونے والا۔بھولکھڑ،بد مزاج ، طوفانی موسم میں اداسی ،اپنے آپ کو گناہ گار سمجھے،دنیا پراپنے آپ کوبوجھ سمجھے ، اپھارہ ،پانی سے خوفزدہ ،نہانا پسند کرے ۔تکالیف میں اضافہ ماہواری میں ہو۔
٭- ”امونیم میور“میں غم اور دکھ کے نتیجے میں دیوانگی۔ مریض چیخنا چاہے لیکن چیخ نہ سکے۔ تلووں سے ناگوار پسینہ،دونوں کندھوں کے درمیان برف جیسی ٹھنڈک ،کھلی ہوا میں بہتری محسوس کرے ۔
٭- ”ایپس میلی فیکا “ کا مریض احمق،چیزیں آسانی سے گر جائیں۔بے چین،دوڑنا چاہے یا چھلانگیں مارے ۔موت کا خوف ۔بیواوں کے اندر جنسی فعل کے دبنے کے نتیجے میں دیوانگی پائی جائے۔
٭- ”ارجنٹم نائٹریکم“کے مریض میں کھڑکی سے باہر کودنے کی خواہش ۔اپنی موت کے بارے میں پیشگوئی کرے ۔ اس کا مریض پھرتیلا ،اعصابیت کا شکار، اداس ، اس کے اندر کسی کام کرنے کے لئے اکساہٹ پائی جائے ۔
٭- ”آرنیکا “ کے مریض کے اندر سر کی چوٹ کے نتیجے میں دیوانگی پائی جائے،سر گرم محسوس ہواور جسم ٹھنڈا۔ خوفزدہ کہ کوئی اسے چھو نہ لے۔ چاہتا ہے کہ مجھے اکیلا چھوڑ دیا جائے ۔ کھلی جگہوں سے خوفزدہ،ذہنی صدمے کے بعد اداس ، اعصابیت کا شکارہو۔
٭- ”آرسینی کم البم“ کے مریض کے اندر موت کا خوف ، شدید قسم کی نقاہت پائی جاتی ہے۔ چوروں اور غیر مری مخلوق سے خوفزدہ ،چوہوں سے خوفزدہ اپنے آپ کو چھپائے،اکیلا رہنا چاہے ، ناامید،تشویش میں مبتلا،اپنے آپ کو بے بیکار اور گناہگار تصور کرے۔روشنی اور بو کا وہم،پریشان شکوک وشبہات میں مبتلا ، خودغرض ، جرات کا فقدان ، بے ترتیبی اور کنفیوژن سے بہت حساسیت پائی جاتی ہے۔
٭- ”الیومینا“ کا مریض پھرتیلا،خود کشی کا رجحان ،اپنے گلے کو کاٹنے کا لیکن موت کا خوف ۔مزاج بدلنے والا پایا جاتا ہے۔
٭- ” ارجنٹم مٹیلی کم “ کا مریض پھرتیلا، وقت آہستگی سے گزرتا ہے ۔اُداس،بے چین ،محسوس کرے کہ اس کا جسم کھولا گیا ہے۔’ ’آرم مٹیلی کم “ کے مریض کے اندر خود کشی کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن موت کا خوف بھی پایا جاتا ہے ۔اس کا مریض پھرتیلا،زندگی کے ساتھ گزارہ کرنے والا،اپنے آپ پر تنقید کرنے والا، اپنے کو مکمل طورپر فالتو تصور کرے۔مکمل طور پر مایوس ۔ ساتھ بلڈ پریشر بڑھا ہوا ، مسلسل اور لگاتار سوال کرتا جائے ،جواب کا بھی انتظار نہ کرے۔
٭- ”بریٹا کارب “ کا مریض شرمیلا ہوتا ہے۔اجنبیوں سے ملنا نہ چاہے۔بچگانہ پن پایا جائے۔
٭- ”کیمومیلا“ کا مریض چاہتا ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں،چھوٹی سی بات سے بھی توہین محسوس کرنے والا ہوتا ہے۔
٭- ”کروٹیلس “ کا مریض اپنے ہی خاندان سے نفرت کرتا ہے ۔ان سے اپنے آپ کو چھپائے اور ملنے سے بچنا چاہے ۔مریض اکیلا رہنا پسند کرتا ہے۔افسردگی محسوس کرے ، بزدل ،کسی چیز میں دلچسپی نہ لے ۔باتونی اور بے صبری پائی جاتی ہے۔
٭-”کافیا کروڈا“ کا مریض پشیمانی محسوس کرتا ہے اور نادم ہوتاہے۔ بہت اداس ،اس کے اندر دماغی بیماریاں وسیع پیمانے میں پائی جاتی ہیں ۔
٭- ”کونیم“کے مریض کے اندر جنسی خواہش کے دبنے کے نتیجے میں تکالیف پائی جاتی ہیں۔اکیلا رہنا پسند کرے ۔ اداسی چھائی ہوئی،بزدل ،کسی کام میں دلچسپی نہ لے ۔ یادداشت کمزور ہو پائی جاتی ہے۔
٭- ” کلکیریا کارب “ کے مریض کے اندر شرابیوں کی سی دیوانگی،جلدی امراض کے دبنے کے نتیجے میں دیوانگی۔ ڈیمنشیا ۔مریض بات کو جلد سمجھ جانے والا ہوتا ہے۔
٭- ”کلکیریا فاس“ میں نوجوانوں میں دیوانگی کی بڑی وجہ بڑھی ہوئی جنسی فعل کے نتیجے میں مشت زنی یاغم اورغصے کے نتیجے میں پائی جاتی ہے۔اس کا مریض جب وہ گھر میں ہو چاہتا ہے کہیں باہرگھومنے کے لئے چلاجائے ۔
٭-”کنابس انڈیکا“(انڈین بھنگ سے تیار ہونے دوا) کے اندر مریض کے اندر ناقابل برداشت ہنسنا پایا جاتا ہے۔ وقت آہستگی سے گزرتا ہے۔دیکھنے میں اپنی عمر سے بوڑھا لگتا ہے۔تھوڑا فاصلہ بھی بڑا لگتا ہے۔(چھوٹی نالی بھی بڑی نہر نظر آتی ہے)یہ خوف کہ وہ پاگل ہو نے جا رہا ہے ۔ باتونی اور بہت بولکھڑ۔دورانِ گفتگو بھول جائے کہ میں نے آگے کیا کہنا ہے۔ اصولوں پر بحث کرتا ہے۔خیالی چیزوں کوتصورات میں دیکھے پائی جاتیں ہیں۔
٭- ”کاسٹی کم“ میں انزائٹی،غم،افسوس اور جھگڑالوہوتا ہے ۔ اس کی زیادتی کے نتیجے میں دیوانگی پائی جاتی ہے ۔ اس کا مریض ہر چیز کا تاریک پہلو دیکھتا ہے۔ایسا محسوس کرے کہ اس کی کھوپڑی اور دماغ کے درمیان خالی پن پایا جائے ۔ دوسروں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔جلدی بیماریوں کے دبنے کے نتیجے میں بیماریاں پیدا ہوتی ہےں۔
٭-” سمی سی فیوجا “ کے اندردیوانگی بار بار کاروبار کے آغاز میں ناکامی کا سامنا یا اعصابی دردوں کے دبانے کے نتیجے میں پائی جاتی ہے۔اس کا مریض یہ خیال کرتا ہے کہ وہ چاروں طرف سے بیماریوں میں مبتلا ہے ۔ تصوراتی برائی کی مخلوق خوابوں میں آئے۔ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھے حتیٰ کہ دوسروں کے ہاتھوں سے دوا تک بھی نہ کھائے۔باتوتی اورایک موضوع کے بعد دوسرا موضوع بدلنے والا،محسوس کرے کہ چاروں طرف چوہے گھوم رہے ہیں۔خود کشی کا رجحان لیکن موت کا خوف،محبت میں ناکامی ،اکیلا سفر کرنا چاہے۔
٭- ”کاکولس “میں بڑھے ہوئی جنسی فعل کے نتیجے میں دیوانگی پائی جاتی ہے۔یا مسلسل تیمارداری کی وجہ سے رات کو جاگنا پڑے۔اس کا مریض بہت غمگین ، تشویش میں مبتلا،محسوس کرے کہ اس کا وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔گانا گانے کے بغیر نہیں رہ سکتا،اختلاف رائے برداشت نہیں کرتا۔دوسروں کی صحت کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتا ہے۔
٭- ” کروکس سٹائیوا“ (زعفران سے بننے والی دوا)کا مریض چاہتا ہے کہ وہ ہر وقت گاتا رہے اور ہنسے۔لطف اندوز ہونے والا،ہر ایک سے بوس و کنار کرنا چاہے ۔ اچانک غصے میں آجائے ۔بدلنے والا مزاج پایا جاتا ہے۔
٭- ”کالی برومیٹم “کا مریض خیال کرتا ہے کہ کوئی اسے زہر نہ دے دے۔اس کا مریض اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے۔ ٹائپنگ میں جوتوں کے ساتھ کھیلنے میں جو اس کی تکالیف کو کم کریں۔محسوس کرے کہ اس کی جیبوں میں سوکھی گھاس ہے۔ محسوس کرے کہ اس کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ رات کے خوف پائے جاتے ہیں۔اس کے اندر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کسی وجہ سے غصے میں ہے۔
٭- ”کالی فاس “کے مریض کے اندر کام کی زیادتی کے نتیجے میں تکالیف پائی جاتی ہیں۔اعصاب میں جان نہیں رہتی ۔ اس کا مریض لوگوں سے میل ملاپ نہیں چاہتا ۔ معمولی سا کام بھی اسے بڑا محسوس ہوتا ہے۔
٭- ”لیکسس “کا مریض باتونی ہوتا ہے۔لوگوں سے میل ملاپ نہیں چاہتا۔مذہبی جنون ،ہذیان ،اخراجات کے دبنے کے بد اثرات۔وقت کے سمجھنے کی خرابی ، دن اور رات کو سمجھنے میں مشکل۔شک و شکوک میں مبتلا،دماغی مشقت کے کام رات کو بہتر طور پر انجام دے سکے۔
٭- ”لائیکوپوڈیم “ کا مریض اداس اوراس کے اندر خود اعتمادی کی کمی پائی جاتی ہے۔بات کو سمجھنے کی صلاحیت (ذہین ہوتا ہے)۔ اپنے آپ کو بیمار سمجھے اور محسوس کرے کہ ایک ہی وقت میں دو جگہ پر ہے۔رونا اورہنسنا ادل بدل کر پایا جاتا ہے۔ اپنے خیالات کو اکٹھا نہ کر سکے۔
٭- ”لیلیم ٹگریم“کا مریض خوف میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کے اندر کچھ آرگینک اورناقابل علاج بیماریاں پائی جاتی ہیں ۔بے مقصد کاموں کو کرنے کے لئے بے چین۔بد دعائیں دینے والا،ہڑتال کرے،فحش معاملات کے بارے میں سوچے۔روحانی طور پر گہری اداسی۔تجاویز یا تسلی دینے سے تکالیف میں اضافہ ،اس کا مریض پھرتیلا ہوتا ہے۔
٭- ”نٹرم میور“ کی بیماریاں نفسیاتی مسائل سے پیدا ہوتی ہیں غم، خوف، غصہ وغیرہ کے نتیجے میں بیماری کے اثرات پائے جاتے ہیں۔مریض دلجوئی پسند نہیں کرتا،چڑچڑا اکیلا رہنا چاہے ،اس کے لئے چیخے۔ہنسنے کے ساتھ آنکھوں میں آنسو،جذبات دبے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
٭- ”میڈورائنم“ کے مریض کا وقت بہت آہستگی سے گزرتا ہے ۔خوفزدہ کہ وہ پاگل ہونے جا رہا ہے ۔ بغیر رونے کے بات نہ کر سکے ۔افسردگی، ساتھ خود کشی کے خیالات پائے جاتے ہیں۔
٭- ”نکس وامیکا“ کا مریض اضطراب کا شکار شور اور روشنی برداشت نہ ہو۔چڑچڑا،غصےوالا ،چھویا جانا پسند نہ کرے،وقت آہستگی سے گزرے۔ دوسروں کی سرزنش کرنے کی طرف مائل ،خفا ،دوسرے کے عیب تلاش کرنے والا ہوتا ہے۔
٭- ”فاسفورس“ کے اندر جنسی پاگل پن پایا جاتا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو بہت اہم آدمی سمجھتا ہے۔جب اکیلا ہو تو سمجھے کہ میں مر جاوں گا۔بے چین اور اضطراب کا شکار ہوتا ہے۔
٭- ”پلاٹینم مٹیلی کم “ کا مریض مغرور ۔دوسروں کی توہین کرنے والا۔اپنے آپ کو دوسروں سے افضل سمجھے۔ اس کے اندر قتل کرنے کی نہ ختم ہونے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر جب وہ آلہ قتل دیکھ لے۔ جسمانی علامات کے دبنے کے نتیجے میں ذہنی علامات پیدا ہو جائیں۔
٭- ” پلسٹیلا “کا مریض آسانی سے رو پڑتا ہے۔بزدل غیر مستقل مزاج،ہمدردی چاہے،مذہبی جنونی لگاو ۔ اپنوں اور غیروں کی بخشش کے لئے دعا گو ۔مخالف جنس سے خوفزدہ ، خیال کرے کہ اس کے اعمال ناقابل معافی ہیں۔خوفزدہ رات کوجب وہ اکیلا ہو کہ بھوت نہ آ جائیں ۔
٭- ”رسٹاکس“کے مریض کے اندر خوف پایا جاتا ہے کہ اس کو زہر دیا جا رہا ہے ۔ڈوب کر خود کشی کا رجحان ،شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔”سلیشیا“ کے مریض خیال کرتا ہے کہ اس کی زبان پر بال ہے اسے وہ بار بار صاف کرتا ہے۔تصور میں پنیں دیکھے ان کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کو گنتا ہے۔
٭- ”سٹیفی سیگیریا“کی بیماریاں ذاتی اَنا کے مجروح ہونے یا توہین ہونے یا غصے کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔ اس کا مریض اداس ، مراق میں مبتلا جو معدے کی خرابی کے نتیجے میں ہو۔بہت حساس کہ دوسرے اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
٭-”سپائی جیلیا “ کا مریض خوفزدہ رہتا ہے کہ کوئی تیزنوک دارچیزیں جیسے پنیں ،سوئیاں،نیزایا بھالا اس کی طرف ہے۔
٭- ”سیپیا “ کا مریض اداس پشیمان ،چڑچڑا ،آسانی سے ناراض ہو جانے والا،اکیلا پن سے خوفزدہ اپنی تکالیف کی علامات بیان کرتے وقت رونے لگ جائے۔
٭- ”تھوجا “کا مریض خیال کرتا ہے کہ وہ شیشے کا بنا ہوا ہے۔موسیقی سننے سے کانپے اور روئے۔چھونا اور دیکھا جانا برداشت نہیں کرتا ۔اپنے خیالات پر مستقل مزاجی سے قائم ،ایسا محسوس کرتا ہے کہ کوئی اجنبی اس کے ساتھ لیٹا ہوا ہے۔اس کی روح اور جسم علیحدہ علیحدہ ہیں۔اس کے پیٹ میں کوئی زندہ چیز موجود ہے۔
٭- ”ٹرنٹولا ہسپانیہ “کا مریض گاتا ہے،ڈانس کرتا ہے ، ہنستا ہے ،چبھنے والی باتیں کرے ،طنزیہ مذاق کرتا ہے،بال نوچتا ہے۔چیزیں پھینکیں محفل خراب کر دے جب دوسرے ڈانس کریں یا گانے گائیں۔
٭- ”ویراٹرم البم “ کے اندر کاٹنے کا جنون اور آنسو بہائے۔مریض احمقانہ انداز میں بیٹھے۔کسی چیز پر توجہ نہ دے، بد دعائیں دے۔اپنی قسمت پر ہذیان میں مبتلا ہونا پایا جاتا ہے۔
٭- ”ویراٹرم ورائیڈ“ میں دیوانگی یا جنون ہائی بلد پریشر کے نتیجے میں یا خون تیزی سے سر کی طرف جائے پایا جاتا ہے۔ مریض خاموش ہوتا ہے حتیٰ کہ اپنے ڈاکٹر سے بھی بات نہ کرے ۔
٭- ”زنکم مٹیلی کم “ کا مریض اداس ،بار بار وہ بات دوہرائے جو اسے کہی گئی ہوں۔جلدی امراض دبنے کے نتیجے میں امراض۔شور پسند نہ کرے، خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔
یہ تو تھیں مختصر علامات چند ادویات کی ۔اب کچھ دواوں کی علامات تفصیل کے ساتھ ،ساتھ جسمانی علامات کا بھی ذکر ہے بیان کی جاتی ہیں۔
امونیم میور
٭-” امونیم میور“ میں ایسے مریض جو بے چین اورغمگین ہوں،پریشانیوں کے نتیجے میں چیخنا اور چلانا چاہیں لیکن چیخ نہ سکیں۔ایسے مریضوں کو آسانی سے چڑایا جا سکے۔ امونیم میور میں معدے کا کینسر،بھوک اور پیاس کی کمی،لیکن لیموں کے شربت کی خواہش۔ مریض کے پیشاب سے امونیا کی بو کے ساتھ سبز پاخانے پائے جا ئیں ۔ اندھیرے سے خوفزدہ، کھلی ہوا میں بہتری آتی ہے ۔ سیدھا چلنے سے اور صبح دو سے چار بجے تک تکالیف بڑھتیںہیں۔صبح کے وقت سر اور چھاتی کی علامات بڑھتی ہیں۔ بعد از دوپہر معدے کی علامات ،شام کو جلدی (سکن ) علامات بڑھتی ہیں۔ان علامات میں ” امونیم میور“ بہت ہی موثر ثابت ہوتی ہے ۔
اناکارڈیم اورینٹل
٭-”اناکارڈیم اورینٹل“ کا روایتی طور پر استعمال یادداشت میں خلل اور نفسیاتی مسائل میںگڑ بڑ پائی جاتی ہے۔ مریض دومنشاوں میں گرفتا ر ہوتاہے۔ وہ ایسا محسوس کرتا ہے کہ اس کے ایک کندھے پر شیطان،بد روح بیٹھی ہوئی ہے اور دوسرے کندھے پر فرشتہ بیٹھا ہوا ہے اور دونوں الگ الگ احکامات جاری کر رہے ہیں۔ اس کا مریض چڑچڑا ہوتا ہے۔اس کے اندر قسمیں کھانا ،بد دعائیں دینے کی نہ رکنے والی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے اندرکہ وہ خیال کرتا ہے کہ دور کی آوازیں جو اس کے بارے میں کہی جا رہی ہیں سن سکتا ہے۔ان سے باتیں کر سکتا ہے۔یااس کے اندر پختہ خیال بیٹھ جاتا ہے کہ شیطانی قوتوں نے اس پر قبضہ کیا ہوا ہے۔اس کی دوہری شخصیت ہے۔اس کی مریضہ اپنے بچے کے بارے میں گمان کرتی ہے یہ بچہ میرا نہیں ہے۔ اس کا مریض خود ستائش،سخت طبیعت ،غصے والا ،جھگڑا کرنے والاہوتا ہے۔اس کی مخصوص جسمانی علامات میں کھچاو والی دردیں،پورے جسم کو پٹی سے کس کر باندھا ہوا ہو،معدے سے سے کر مقعد تک جانے والی نالی یا مقعد میں ڈاٹ لگا ہوا ہے۔ ان تناظر میں یہ نظام انہظام کی خرابیوں میں استعمال ہوتی ہے ۔ جلدی علامتوں میں جنجھلاہٹ کے ساتھ شدید خارش اور جلن پائی جاتی ہے اور چھاتی میں معمولی درد پائی جاتی ہے۔
’ ’ایپس میلی فیکا“
٭-’ ’ایپس میلی فیکا“میں ناامیدی سے پیدا ہونے والا کرب،غصہ اورکچھ کرنے یا کہنے کے بارے میں اعتمادکا نہ ہونا کے احساسات پائے جائیں۔لیکن ایسی وجوہات کے ساتھ اگر چیخنے چلانے کی صلاحیت موجود ہو۔ڈپریشن کی علامات کی وجہ سے مریض کوایک آدمی کی ضرورت ہو جو ہر وقت اس کے ساتھ رہے ۔مریض کے اندر پیاس کا فقدان ، آنکھوں کے نیچے پانی کی سی تھیلیاں موجود ہوں تو’ ’ایپس میلی فیکا“ کے ساتھ اس کو شفا یاب کیا جا سکتا ہے۔
ارجنٹم نائٹریکم
٭-”ارجنٹم نائٹریکم“کا مریض یہ سوچتا ہے کہ وہ ضرور ناکام ہو جائے گا۔خوفزدہ اور اعصابیت کا شکار، اس کے اندر سوچے سمجھے بغیر کھڑکی سے باہر چھلانگ مارنے کی ترغیب پائی جاتی ہے۔ نیم بے ہوشی اور کانپنا ،مالیخولیا ، اپنی شدید بیماریوں سے خوفزدہ، یادداشت کمزور اس کی تخلیقی صلاحتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔اس کا مریض غیر معقول استدلال کرنے لگتا ہے۔وقت آہستگی سے گزرتا ہے ،سمجھ بوجھ میں کمی،ایسی اضطرابی کیفیت کہ ہر کام کوکرنے میں جلدی کرے ۔خوف اور انزائٹیزاور بے بنیاد چھپی ہوئی قوت محرکہ جو عمل کرنے پر مجبور کرے۔”ارجنٹم نائٹریکم“کا مریض توہمات کا شکار، اس کے اندر مختلف قسم کے خوف پائے جاتے ہیں۔خیالی ہیولے نظر آئیں ۔اگرخیالی ہیولے نظر نہ آئیں توبھی سمجھتا ہے کہ کوئی چیز ارد گرد موجود ہے۔خاص مقامات پر جانے سے خوفزدہ۔ اُونچی جگہ سے نیچے کی طرف دیکھے تو ڈرے کہ کہیں میں چھلانگ نہ لگا دوں۔اس لئے اونچائی پر جانے سے اجتناب کرے۔نیچے سے اوپر کسی بلند عمارت کو دیکھنے سے بھی سخت خوفزدہ ہو جاتا ہے۔اُونچے چھت والے ہال میں جانے سے خوفزدہ،کہیں چھت اس کے اوپر نہ گر جائے۔پل پر سے گزرتے ہوئے ڈرے کہ کہیں دریا میں چھلانگ نہ لگا دوں۔بلکہ چھلانگ لگانے کا جوش دل میں اُٹھتا ہے۔خوف سے کانپتا ہے اور کمزوری محسوس کرتا ہے ۔ بند اور تنگ جگہوں میں جانے سے خوفزدہ ۔ کسی امتحان یا اہم ملاقات سے پہلے اسہال شروع ہو جائیں۔بعض لوگ ایسی کیفیت میں مضطرب ہو جاتے ہیں اور انہیں سخت غصہ آتا ہے۔یادداشت کھو بیٹھتا ہے۔اگر یادداشت مستقل کھو بیٹھے تو اس اس کی دوا ”الیومینا“ ہے اس کو کچھ عرصہ تک استعمال کیا جائے تو کام کرتی ہے۔یہ تو تھیں اس کی ذہنی علامات اس کے ساتھ جسمانی علامات میںدل کی کمزوری نیلاپن کے رجحان کے ساتھ۔مستقل آشوب چشم،جس کے ساتھ پیپ کی طرح کے اخراج ، آنکھوں میں درد اور تھکن کا احساس ۔ حیض کے آغاز میں معدے میں درد،رحم کی گردن پر زخم جن سے خون رسے۔ماہواری ختم ہو جانے سے ایک دو ہفتے بعد دوبارہ شروع لیکن مقدار میں کم۔معدے کے پرانے السرجن سے خون کے اخراج کا رجحان۔میٹھا کھانے کی خواہش ساتھ پیٹ میں ہوا اور تناو۔گلے میں ہیپر سلف کی طرح کی پھانک اٹکنے کا احساس۔ڈراونی خوابیں آتی ہیں۔اس کے اندر نچلے دھڑ کا فالج بھی ملتا ہے۔تکلیفوں میں اضافہ کھانے کے بعد ہوتا ہے ۔ کھلی ہوا اور سردی سے تکالیف کم ہو جاتی ہیں۔
آرسینی کم البم
٭- ”آرسینی کم البم“ کے مریض کے اندردماغی اور جسمانی علامات پائی جاتی ہیں۔ذہنی علامات میںذہنی طور پربے چین، شک کرنے والا،جلد باز ،چڑچڑا ،اداس ناامید اور ڈپریشن میں مبتلا ہوتا ہے۔اس کے مریض مشکل ترین ہوتے ہےں ۔اس کے مریض دلائل کے ساتھ تنقید کرنے والے ،بے وجہ ناراض ہونے والا،خوفزدہ ،اپنے آپ کوغیر محفوظ سمجھے، بھولکھڑ،درد سے بہت حساس اور اکثر ہذیان اور واہمہ (ایک غلط تصوراتی خیال) میں مبتلا ہوتا ہے۔ اپنی تکالیف سے زیادہ تکلیف کو محسوس کرے ۔اکیلے رہنے سے خوفزدہ ۔ ”آرسینی کم البم“میں ذہنی بے چینی سب سے نمایا ں پائی جاتی ہے۔اگر یہ بے چینی جسمانی ہو تو اس کی دوا ”رسٹاکس“ہے۔ اس کے اندر موت کا خوف پایا جاتا ہے ۔ مریض سمجھتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مریض نازک اور نفیس ہوتا ہے ،یہاں تک کپڑوں پر سلوٹ تک برداشت نہیں کرتا ،اخراجات سخت بدبودار،متعفن ہوتے ہیں ۔ پیچش اور اسہال کی رنگت سیاہی مائل تھوڑی تھوڑی بار بار حاجت ہوتی ہے۔ انتڑیوں کی طبعی حرکت متاثرہوتی ہے ۔وہ زہریلے مادے جو عام طور پر نکل جاتے ہیں وہ جسم میں جذب ہونے لگتے ہیں۔ وہی زہریلے مادے بے چینی پیدا کرتے ہےں ۔ مریض میں بار بار پیاس اس بے چینی کی مظہر ہوتی ہے۔ ٹھوڑے تھوڑے پانی کی بار بار طلب ، عورتوں میں رحم کی بیماریاں ذہنی بیماریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔اگر اس کا ماہانہ نظام کسی ایسی دوا سے ٹھیک ہو جائے لیکن بے چینی ، توہما ت،موت کاخوف اور پاگل پن کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو یہ اچھی علامت نہیں ایسی مریضہ کی اگر باقی علامات بھی ساتھ ہوں تو آرسینی کم البم شفا کا باعث بن سکتی ہے۔آرسینی کم البم“ کی بے چینی بعض دفعہ پاگل پن میں تبدیل ہو جاتی ہے۔خود کشی کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے ۔مریض اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میری بخشش کا وقت گزر چکا۔”آرسینی کم البم“کی جسمانی علامات میں جلن،ناگوار بواور پانی کی طرح کے اخراجات،دل کی دھڑکن تیز،کھٹے پسینے وافر مقدار میں۔زبان کی نوک سرخ ،جسم کے کسی بھی حصے سے خون بہنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔خون کی الٹیاں پھیپھڑوں سے خون کا آنااور میوکس ممبران سے خون کا آنا شاذو نادرپایا جاتا ہے۔ ”آرسینی کم البم“ میںعلامات میں اضافہ کی نوعیت مختلف ہوتی ہیں کچھ علامات میں اضافہ رات کو سونے کے بعد رات کو دو بجے،کچھ میں صبح کو اُٹھنے پر اور کچھ میں دوپہر کے کھانے کے بعدہوتا ہے۔
اورم مٹیلی کم
٭-”اورم مٹیلی کم“اگر کوئی ذہنی مریض جس کے اندر یہ احساس پایا جائے کہ وہ نااہل ہے اور وہ سمجھے کہ اب امید کی کوئی کرن باقی نہیں۔ مریض یہ محسوس کرے کہ اب زندہ رہنابے کار ہے ۔مریض کے اندر خود کشی کے رجحانات پیدا ہوںتو”اورم مٹیلی کم“ دوا ہے۔یہ مریض کے اندر دوبارہ جینے کی امنگ پیدا کر دیتی ہے۔
آرم میور
٭-”آرم میور“کی اکثر تکالیف دل کے ارد گرد گھومتی ہیں اور ”آرم مٹیلی کم“ کی جگر اور دل کی بیماریاں پراکٹھا حملہ کرتی ہیں۔”آرم میور“ کے اندر جلن دار دردیں پائی جاتی ہیں جہاں بھی درد ہو گی وہاں جلن ضرور ہو گی ۔ اس کی تکالیف ٹھنڈے اور بھیگے ہوئے موسم میں آرام پاتی ہیں۔ پیشاب کے اندریوریابھی آتا ہے۔ غدودوں کی بیماریوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔چنانچہ یہ غدود کے کینسر میں بھی مفید بتایا گیا ہے۔اگر اس کی علامات موجود ہوں تو یہ دوا خطرناک کینسر میں بھی شفا بخش ثابت ہوتی ہے۔ ”آرم میور“حمل کے ابتدائی ایام میں بلکہ پہلے دن شک پڑتے ہی”آرم میور سی ایم“ کی ایک خوراک دینے سے خدا کے فضل سے اکثر بیٹا پیدا ہوتا ہے۔اگر زیادہ دن اوپرہو جائیں تو پھر یہ دوا بے اثرہو جاتی ہے۔بیٹا ہونے کے معاملہ کو قاعدہ کلیہ ہرگز نہیں بنایا جا سکتا ۔علم التشخیص میں ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے دن چڑھتے ہی ”آرم میور سی ایم“ خوراک کھائی تھی مگر اس حمل میں بیٹی پیدا ہوئی۔ہاں دوسرے حمل میں بیٹا پیدا ہوا۔پس بیٹی اور بیٹے میں کوئی قاعدہ کلیہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اسی فیصد لڑکا پیدا ہوتا دیکھا گیا ہے۔کانوں کی تکالیف میں موسیقی سے آرام آتا ہے۔تو پھر یہ دوا مفید ہے۔ ”آرم میور “ کی زیادہ ترذہنی علامات ”آرم مٹیلی کم“کی طرح پائی جاتی ہیں۔اس کے اندر اسی طرح خود کشی کو انجام تک پہنچانا پایا جاتا ہے۔اس کا دماغ اپنی تباہ شدہ صحت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے یا اس کے دماغ میں یہ بات بس جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں افسردہ ، غمگین رہنے سے موت کی خواہش کرتا ہے۔رونے کے ساتھ اپنے پیشے سے نفرت ہو جاتی ہے۔”آرم میور“میں مریض کا دماغ تنہائی میں لگاتار اپنی خراب صحت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے ۔ ان خیالات کے نتیجے میں مالیخولیا ،ڈپریشن اور اداسی،جیسے کچھ غلط ہونے والا ہے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ سست ،کاہل ، پرانے سفلس کے مریض مالیخولیا میں مبتلا۔ شدید تسویش میں مبتلا ہونے کی وجہ سے دل کی دھڑکن میں تیزی پائی جاتی ہے۔شدید چڑچڑا،کوئی اسے مطمئن نہ کر سکے۔مسلسل فکر مند۔اس کے اندر شدید دماغی اور جسمانی بے چینی ،گلیوں میں آہستہ چلے۔ کھلی ہوا میں بہتری آئے۔اس کی تکالیف میں شدیداضافہ گھر میں اور گرم کمرے میں ہوتا ہے۔اپنی تکالیف کے بارے میں سوچنے پر ہارٹ بیٹ مضبوط اور تیز ہو جاتی ہے۔ خوف کے نتیجے میں ،بیزاری اوررسوائی کے احساس کے بعدعلامات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
بریٹا میور
٭- ”بریٹا میور “کا مریض بغیر وجہ کے ناراض ہو جائے۔اس کے اندر مستقل کے بارے میں اورشام کو انزائٹی پائی جاتی ہے۔ساتھ متلی،معدہ میں دباو اور قے پائی جاتی ہے۔یہ ان بچوں میں بہت مفید ہے جو سیکھنے اور سمجھنے میں کمزور ہوں۔دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی خواہش نہیں پائی جاتی ۔ توجہ مرکوز کرنا ممکن نہیں۔ارد گرد کا ماحول عجیب لگتا ہے،اس کو بدل دے،ہذیان کہ وہ اپنے گھٹنوں پر چل رہا ہے۔دماغی طور پر ڈل۔مریضہ سوچے کہ وہ مر رہی ہے۔برائی کی طاقتوں کا خوف، مردوں کا خوف۔ احمقانہ رویہ،خبط ،احمقانہ فعل کرے،اختلافات کا شکار دیوانگی ، دیوانگی مضبوط جنسی جذبات کے نتیجے میں ۔”بریٹا میور“ میں پاگل کر دینے والی بڑھی ہوئی جنسی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس کے اندراس پاگل پن کی وجہ سے اپنے مخالف جنس کو بازار یا گلی میں ہی پکڑ لیتا ہے۔ عورتوں اور مردوں میں غیر معمولی جنسی جوش کے نتیجے تشنج پایا جاتا ہے۔اس کے اندرہر قسم کا جنون جوبڑھی ہوئی جنسی خواہش کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ تذبذب کا شکار۔شام کو چڑچڑا پن۔عورتوں میں بڑھی ہوئی جنسی خواہش ۔صبح کے وقت اداسی ۔خاموشی سے بیٹھے۔بچے ایک کونے میں بیٹھ جائیں اور کنفیوژڈ جواب دیں۔آسانی سے ڈرایا جا سکے،شکی،بات کرنے کے قابل نہ ہو،نیند میں باتیں کرے،بے ہوشی،غشی ،چلتے وقت چکرآئیں ،چیزیں ارد گرد گھومیں۔بریٹا میور میں سفید ذرات بڑھے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
کاسٹی کم
٭-ایسے ذہنی مریض جن کے اندر کچھ کرنے یا کہنے کا اعتماد نہ ہو۔لیکن اس کے اندر جذبات ہوں۔ وہ خیالات اور جذبات اسے تنگ کریں۔اُداسی کے نتیجے میں پریشانی اور دوسرے مسائل جوانزائٹی، نا امیدی سے پیداہوں ۔ اس سے پیدا ہونے والے کرب میں ”کاسٹی کم“ بہترین دوا ہے۔
سمی سی فیوجا
٭- ”سمی سی فیوجا“میں ایسا احسا س پایا جاتا ہے کہ وہ بادلوں میں گھری ہوئی ہے۔شدیدڈپریشن،ایسے خواب آئیں کہ کوئی برائی آنے والی ہے۔بند گاڑی میں سفر کرنے سے خوفزدہ ،چھلانگ لگا کر باہر نکل جانے پر بہتر محسوس کرے،مسلسل باتیں کرنے والی،وہمی نظاروں میں چوہے دکھائی دیں،شدید ہذیان میں اپنے آپ کو زخمی کرنے کی کوشش کرتی ہے۔اعصابی دردیں غائب ہونے پر جنون ظاہر ہو جائے۔اس کے مریض کے اند ر جب مریض بہتر ہو تو وہ باتونی اور جوشیلا ہوتا ہے۔ جب ڈپریس ہوتو وہ بے چین اور اداس ہوتا ہے۔ ساتھ خوف بڑھا ہوا ۔پر درد ماہواری میںسر درد جس میں گردن ملوث ہو بہت ضرور ی علامت ہے۔”سمی سی فیوجا“میں ایک اہم نقطہ یاد رکھنے کے قابل ہے۔اس کی مریضہ میں جوڑوں کی دردیں بنیادہوتی ہیں۔اس کے علاوہ ان کے اندر ذہنی حالت میںجھنجھلاہٹ، کمزوری ، افسردگی اور اُداسی یقینی طور پر پائی جاتی ہے ، دماغی علامت میں یہ احساس کہ وہ پاگل ہونے جا رہی ہے۔ رحم کی علامت کے ساتھ شدید سر درد پایا جاتا ہے۔اس کے اندر گھبراہٹ ، اعصابی دردیں اوراعصاب کا بہت زیادہ حساس ہونا پایاجاتا ہے۔ایسی بچیاں جو بہت نازک مزاج اور حساس ہوں۔دنیا سے بے نیاز ، اپنی ذات میں گم سم رہنے لگے ، اگر اس کو زور دے کر بلایا جائے تو وہ رونے لگ جائے اس کی دوا ”سمی سی فیوجا“ہے۔اس وقت یہ دوا باعثِ رحمت ثابت ہوتی ہے۔نازک مزاج عورتوں کو صدمہ کی صورت میں ماہانہ نظام میں خرابیاں جوڑوں کی دردیں اور دیگر عوارض پیدا ہو جائیں۔خوف اوروہم کہ مجھے کوئی زہر نہ دے دے۔ اس لئے وہ دواتک بھی استعمال نہیں کرتیں ۔اس کی تکالیف صبح کے وقت اور سردی سے بڑھ جاتی ہیں ۔سوائے سر درد کے جسے گرمی سے اور کھانا کھانے سے آرام آتا ہے۔
جلسی میم
٭-مریض میں کسی سے بات کرنے کی خواہش نہیں پائی جاتی۔جلد ناراض ہو جانے والا،تذبذب کا شکار،کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنے کی اہلیت نہیں پائی جاتی۔اس طرح کے ذہنی مریض میں پیاس کا فقدان پایا جائے تو ”جلسی میم“ دوا ہے۔
ہائیوسمس نائیگر
٭- ”ہائیوسمس نائیگر“کا اثر اعصاب پر اور خصوصاً جنسی اعصاب پر ہوتا ہے۔ اس کے اندر پورا اعصابی نظام درہم برہم ہوکر رہ جاتا ہے۔مریض محسوس کرتا ہے کہ اس کے دماغ کو کسی غیر معمولی طاقت نے قبضہ کر لیا ہے۔ہذیان بکتا ہے،پاگلوں والی حرکتیں کرتا ہے۔جنسی اعضاءکی سوزش کی وجہ سے گندی شرمناک باتیں کرے۔شریف آدمی بھی دورانِ بیماری فحش باتیں کرتا ہے۔عضلات پھڑکتے ہیں ۔ ان میں جیسے شعلے لپکیں پھر تشنجی کیفیت پیدا ہو۔چبھن ،جیسے سوئی سے ٹانکا بھرا ہے۔تشنج اور اکڑاو ، جھٹکے لگیں،بعض دفعہ اعصاب پھڑکیں۔کمزوری اس حد تک کہ سر تکیے سے سرک کرنیچے آجائے (میورٹیک ایسڈ کی طرح)۔اتنی کمزوری جیسے طاقت سلب ہو رہی ہے۔ اس کا مریض وہمی ہوتا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کے پاس کھڑا ہے۔خیالی وجود سے باتیں کرے۔مڑ مڑ کر پیچھے دیکھے کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے۔لیکسس کی طرح کا شکی مزاج ہوتا ہے۔کسی قریبی عزیز نے اس کی دوا میں زہر ملا دیا ہے۔نیم بے ہوشی میںچیخیں ماریں پھر بے ہوش ہوجائے۔بیماری کی حالت میں اپنے آپ سے باتیں کرے۔اس میں وہم جڑ پکر لیتے ہیں۔میری بخشش کا وقت گزر گیاہے،اب میں کبھی بخشا نہیں جاوں گا۔فرضی جرم دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے کہ کوئی اس نے قتل کیا ہے یا کوئی بھیانک جرم کیا ہے۔یہ صرف وہم ہوتا ہے۔مریض چلتے وقت بھول جاتا ہے کہ میں کہاں ہوں۔گھر پر ہو توسمجھتا ہے کہ گھر پر نہیں ہوں،اجنبیت کا احساس،پانی سے ڈرنے لگتا ہے۔پانی بہنے کی آوازسے طبیعت میں جوش پیدا ہو جاتا ہے۔گلے میں تشنج جس سے گلے میں پانی تک نہ جائے۔ایام حیض سے قبل ہسڑیائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔رات کو سوتے ہوئے مرگی کے دورے پڑ جاتے ہیں۔اس کے مریض کی علامات میں اضافہ رات کو سوتے میں اور کھانا کھانے کے بعداور لیٹنے سے بڑھ جاتے ہیں۔تنہائی سے ڈرتا ہے۔جھکنے سے تکالیف میں کمی آتی ہے۔ اس کے اندر جسم کے ہر مسلز میں آنکھوں سے لے کر ناخنوں تک مڑنا پایا جاتا ہے۔اس کے اندر ایسی خشک کھانسی پائی جاتی ہے جس میں اضافہ لیٹے پر ہو اور اُٹھ کر بیٹھنے میں بہتری پائی جاتی ہے(ڈروسرا)۔خاص طور بوڑھے افراد میں۔نمونیہ میں بھی مفید ہے۔
اگنیشیا
٭-غم کی صورت میں دوسری ادویات کی طرح اگنیشیا امارہ کوبھی بہت کامیابی سے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ مریض کی شخصیت کو تبدیل کرنے کی اہلیت تو نہیں رکھتی لیکن کسی تازہ غم ،حادثہ یا کسی کے بچھڑنے کے غم کی صورت میں بہترین معاون ثابت ہوتی ہے۔یہ اس واقعہ کو بھول جانے میں مدد گارثابت ہوتی ہے ، مریض کے اندر جینے کی امنگ پیدا کر دیتی ہے۔ زندگی کے ہر لمحہ سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔اس کا مریض انتہائی حساس ہوتا ہے ۔دوران تکلیف سانس میں بھاری پن،بدلنے والا مزاج،اور ہائی اسٹینڈرڈ پسند کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے ۔ ”اگنیشیا“کے مریض کا مزاج بدلنے والا،خود بینی کا شکار، خاموش ، سوچ بچار اور،مالیخولیا میں مبتلا ،اداس، پر نم،اپنے خیالات اور نظریات کو دوسرے سے شئیر نہ کر سکے۔غم ،دکھ میں دوسروں کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے مبتلا ہوتاہے۔اگنیشیا غم کو دور کرنے والی دوا ہے۔اس کی مریضہ بہت حساس،شائستہ اور لطیف احساسات کی مالک ہوتی ہے۔اس کا مزاج بدلنے والا،غم دکھ ،یا کسی کا توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے صدمے کا اثر جلد قبول کرنے والی ہوتی ہے ۔ مریضہ دکھوں کی وجہ سے دل کی اور دماغی مریضہ بھی بن سکتی ہے۔بعض اوقات ہسٹریا کے دورے پڑتے ہیں۔اس کی مریضہ میںغم اور دکھ کی تکالیف کے باوجود چیخ و پکاریا تکلیف کا اظہار کرنے کی کمی پائی جاتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں ہمت نہیں ہوتی ۔غصہ نکالنے کی بجائے اندر اندر کڑنے والی ہوتی ہے۔کسی توہین آمیز رویہ کے نتیجے میں سر درد کا پیدا ہو جانا،اعصابی تناو ،بے چینی محسوس کرتی ہے۔کسی قریبی عزیز کے وفات کا صدمہ ،اگر صدمہ تازہ ہو تواگنیشیا کی چند خوراکیں مریضہ میں دوبارہ جینے کی اُمنگ پیدا کردیتی ہے ۔ یہ غم اگر پرانے نوعیت کے ہو جائیں اور ان کا گہرا اثر جسمانی افعال پر پڑ جائے تو اس کی دوائیں ”سلیشیا،امبرا گریسا اور نٹرم میور“ ہیں۔اس کی مریضہ نروس ہوتو وہ کانپتی ہے،اعصاب میں جھرجھرتی محسوس کرتی ہے، بے ہوش ہو جاتی ہے۔اس کی مریضہ میں گلے کی تکالیف کے باوجود نگلنے سے بہتری آتی ہے۔جس طرف تکلیف ہو اسی کروٹ لیٹنے سے بہتری آتی ہے۔گلے میں خراش کی وجہ سے کھانسی آئے تو کھانسنے سے تکلیف کم نہیں ہوتی بلکہ کھانسی بڑھ جاتی ہے ۔اگر چھڑ جائے تو کم ہونے کا نام نہیں لیتی ۔ ایسی کھانسی کے درمیان میں اگنیشیا کی ایک خوراک دے دی جائے تواس کاحیرت انگیز اثرہوتا ہے۔ اگنیشیا کی مریضہ ناامید،مایوس ،کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی ، یادداشت کمزور ، وہمی ، ہسٹریا میں مبتلا،عجیب و غریب نظارے دیکھے ۔ اس حالت میں اگنیشیا دے دی جائے تو شفا کا باعث بنتی ہے۔اگر مرض بڑھ کر پاگل پن کی طرف چلی جائے پھر تواگنیشیا کام نہیں آتی۔اگنیشیا کی مریضہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ وہ سخت گناہگار ہے اور اس کی بخشش ممکن نہیں یہ علامت اس کے علاوہ ”پلسٹیلا ، ہیلی بورس، آرم، ہائیوسمس ، لیکسس اور اس کی طرح کی بعض اور دواوں میں بھی پائی جاتی ہیں ۔ اگنیشیا کی مریضہ ٹھنڈے جسم کی ہوتی ہے ۔ اس کے باوجودٹھنڈے پانی کی خواہش پائی جاتی ہے۔عام کھانے سے بے رغبتی پائی جاتی ہے ۔آرام سے سکون محسوس کرتی ہے ۔ آنکھوں کی علامات میں،آنکھوں کے سامنے دھبے ،ٹیڑھی ٹیڑھی لکیریں،جھلملاتی نظر آتی ہے۔اگنیشیا کے مریض کے منہ کا ذائقہ ترش ہوتا ہے،بے وقت کی پیاس لگتی ہے۔بحث میں اوٹ پٹانگ باتیں کرتی ہے ۔ گہری نیند سو نہیں سکتا ،سوتے ہی جھٹکے لگتے ہیں ۔یا غم کے نتیجے میں نیند اُڑ جاتی ہے۔ غم کے نتیجے میں حیض بند ہوجا تا ہے یا رک جاتا ہے۔ اس کی تکالیف صبح کے وقت اور کھلی ہوا میں بڑھتی ہیں۔کھانا کھاتے ہوئے ،آرام سے یا کروٹ بدلنے سے تکالیف میں کمی آتی ہے۔ ایسے مریض جن کے غم کھلے اور واضح ہوں اور ابھی تک حل نہ ہوئے ہوں۔مریض افسردہ ،دل بجھاہوا ،خوفزدہ یا ناراض اوراداس ہو۔یہ علامات موجود ہونے کے مریض چیخنا چاہے لیکن اس میں صلاحیت نہ ہو تو”نٹرم میور“ دوا ہے ۔یہ اگنیشیا کا مزمن بھی ہے۔
فاسفورک ایسڈ
٭-ایسے مریض جن میں ناامیدی سے اور شدید جذبات کے نتیجے میں تھکاوٹ پیدا ہو۔اپنے ارد گرد کے ماحول کی ہر چیز سے دلچسپی میں کمی آجائے جن سے کبھی وہ دلچسپی لیتا تھا اور لطف اندوز ہوتا تھا۔ ”فاسفورک ایسڈ“ دوا ہے۔
پلسٹیلا
٭-”پلسٹیلا “ کے اندر ذہنی اور جسمانی علامات ادل بدل کر آتی ہیں۔اس کا مریض نرم مزاج،رونے کی طرف مائل،بزدل ہوتا ہے۔یہ مزاج عام طور پر عورتوں میں پایا جاتا ہے اس لئے اس کو عورتوں کی دوا کہا جاتا ہے۔ا س کی مریضہ بات بات پر رو پڑے گی ۔گم سم ،چھوٹی سی بات کو شدت سے محسوس کرنے والی۔جب وہ محسوس کرے کہ اس کی اَنا کو کچلا جا رہا ہے تو اس کا ری ایکشن بھی شدت سے کرتی ہے،وہمی،چڑ جانے والی،اس کو وہم رہتا ہے کہ کوئی میری بے عزتی کر رہا ہے ۔ تشدد پر نہیں اترتی ، مایوس،بے حوصلہ ہوتی ہے۔مذہبی جنون ، مریضہ اپنے غصے کے جذبات کو دباتی رہتی ہے۔یہ جذبات مذہبی پاگل پن میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ” پلسٹیلا“کا مقام عورتوں کی مخصوص بیماریوں میں استعمال ہونے والی ادویات میں اس کا نمبر پہلا ہے۔اس کی مریضہ میں شرافت ،حلیمی ،بزدلی،نرم جو تابعداری پائی جاتی ہے ۔جو عورتوںکی ایک عمدہ خصوصیت ہے۔”پلسٹیلا“کی اہم خصوصیت میں پر نم ہوناایک مضبوط علامت ہے۔عورتوں کے جنسی اعضاءپر اس کا ایک طے شدہ اثر ہے۔اس میں پہلا اثر ماہواری پر ہے اس میں ماہواری کے بہاو میں کمی ،ساتھ پیٹ میں شدید اچانک دردزیادہ مقدارپایا جاتا ہے۔درداتنے شدید جسے مریضہ بڑی مشکل سے برداشت کر سکے۔درد سے مریضہ دوہری ہوجائے۔ ”پلسٹیلا“ ماہواری کے درد کے ساتھ آنے میں ایک مفید دوا ہے۔اس کی مریضہ سوجی ہوئی ، اس کی مکمل تصویر میں اجتماع خون کمر میں پائی جاتی ہے۔جو پاوں کے گیلے ہونے کے وجہ ہوتی ہے ۔ پلسٹیلاکا تعلق لمف کے گلینڈز سے ہے۔اس میں ماہواری کم اور دیر سے آتی ہے۔پیاس کا فقدان ،کھلی اور ٹھنڈی ہوا میں بہتری آئے تو ”پلسٹیلا“ 30 دوا ہے۔اس کا مریضہ متضاد سیکس سے انتہائی خوفزدہ ہوتا ہے۔منہ خشک ، بغیر پیاس کے ،گلے کولگاتار صاف کرنے کی خواہش،لگاتار خشک ہونٹوں کو تر کرے پایا جاتا ہے۔
سیپیا
٭-”سیپیا“ عام طور پر عورتوں میں استعمال ہونے والی دوا ہے۔ اس کی مریضاوں میں طبعی جنسی رجحان مٹ جاتے ہے ۔ پیار و محبت کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔یہاں تک کہ ایک پیار کرنے والی ماں اچانک مامتا کے جذبات سے عاری دکھائی دیتی ہے۔اپنے خاوند سے قطعاً بے نیاز اور لا تعلق ہو جاتی ہے۔رفتہ رفتہ اس کے تعلقات کے دائرے محدود ہونے لگتے ہیں۔خود کشی کا رجحان بھی پیدا ہو جاتا ہے۔نیم پاگل سی ہو جاتی ہے۔یہ کیفیات لمبے عرصہ تک اندر ہی اندرتکلیفیں برداشت کرتے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں۔مریضہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے اس لئے ہر چیز سے بیزار ہو جاتی ہے۔ایسی مریضہ پاگل بھی ہو جاتی ہے اور ہر اس چیز سے جو اسے اچھی لگنی چاہیے نفرت کرنے لگتی ہے۔مریضہ خوفزدہ،رہتی ہے ۔ یہ عورتوں کی دوا ہے خاص طور پر گہرے بھورے رنگ کے بالوں والوں کی،ان کے اندرونی اعضاءمیں گیندہونے کا احساس ہوتا ہے۔رحم کی بہترین اور اہم ادویات میں سے ایک ہے۔ٹی بی کا مزاج رکھنے والی مریضہ جن میں مزمن جگر کی خرابیاں اور رحم کی علامات پائی جائیں۔”سیپیا“ میں پیڑو سے متعلق اعضاء ڈھیلے ۔ نیچے کی طرف دباو اس احساس کے ساتھ جیسے ہر چیز اندام نہانی سے باہر نکل جائے گی ، مریضہ ٹانگوں کو کراس کر کے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔یا اندام نہانی کو دباکر رکھتی ہے ۔ لیکوریا پیلا،سبزی مائل ساتھ شدید خارش ۔ ماہواری دیر سے اور کم مقدار میں آئے،بے قاعدہ، جلدی اور کھل کر،تیز مٹھی میں لینے والی دردیں ۔شدید سوئی گڑنے والی دردیں اوپر ویجائنہ کو جائیں،رحم سے ناف کی طرف جائیں۔رحم اور ویجائنہ لٹکی ہوئی،صبح کی متلی،اندام نہانی کا راستہ پُر درد، خاص طور پر دورانِ مباشرت ۔”سیپیا “بنیادی طور پر نظام وریدی جگر پر اثر کرتی ہے۔جس کے ساتھ رگوں میں دوران خون میں رکاوٹ، اسقاط حمل کا رجحان حیض کے دنوں ہاٹ فلیشزساتھ کمزوری اور پسینہ بہت پایا جاتا ہے۔اس کی مریضہ گرم کمرے میں بھی ٹھنڈک محسوس کرتی ہے۔
سلفر
٭-”سلفر“ کا مثالی مزاجی مریض لا اُبالی ہوتا ہے۔اس کی عادات میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے۔نہانے سے نفرت (یہی مزاج اوپیم میں پایا جاتا ہے)افیمی کے اندر بھی نہانے سے نفرت پائی جاتی ہے۔سلفر کا مثالی مریض گندہ ، اس سے بدبو آتی ہے۔بغلوں اور پاوں سے بدبودار پسینہ آتا ہے ۔ اس کی طبیعت میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ خود تو بو میں لپٹا ہوتا ہے لیکن دوسری کی بو سے بہت حساس ہوتا ہے۔اس کے مریض چلتے پھرتے رہیں تو ٹھیک رہیں،لیکن جیسے ہی بستر پر لیٹے اور جسم گرم ہو جائے تو بہت سی بیماریاں لوٹ آتی ہیں ۔ سلفر کامزاج گرم ہے ۔ سلفر کے مریض کے اندر فلسفی بننے کا بہت شوق ہوتا ہے اور کچھ مزاجاً فلسفی ہوتے ہیں۔اگر یہ شوق جنون کی حد تک بڑھ جائے تو اونچی طاقت میں سلفر کی ایک دو خوراکوں سے کافی فرق پڑ جاتا ہے۔صرف فلسفی ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے۔سست مزاج کسی کام میں دل نہیں لگتا،اپنی سوچوں میں رہتے ہیں۔ یادداشت کمزور ،سوچ بچار میں دشواری پیش آتی ہے۔
”سلفر“کا مریض انتہائی گرم خون والا ہوتا ہے۔ہاتھ اور پیرگرم جن کو ہمیشہ کمبل سے باہر نکال دے۔اعصابیت کا شکار،دبلا پتلا ،کندھے جھکے ہوئے وہ جھک کر چلے اور بیٹھے ۔دیکھنے میں عام روش سے ہٹا ہوا ۔سلفر کے مریض کو آپ مجمع میں بھی پہچان سکتے ہیں ۔ بال بڑھے اور اُلجھے ہوئے ، پرانے فیشن کے کپڑے پہنے (بعض دفعہ کئی ہفتوں تک وہی پہنے رکھے)۔جسمانی شکایات ہمیشہ عود کر آتی ہیں۔اس کی تکالیف کی شدت میں اضافہ دوپہرکو اور آدھی رات کو ہوتا ہے۔ اپنے خیالات پر قائم اس کے علاوہ سب غلط۔بند کمروں میں مصنوعی گرمی برداشت نہیں ہوتی اس سے دم گھٹتا محسوس ہو۔ اس کے اندر مختلف نوعیت کی انزائٹی پائی جاتی ہیں۔تنقید اور تسلط برداشت نہیں کرتا،ان سے حقارت سے پیش آتا ہے۔اپنی ایگو اور عزت کو قائم کرنے میں شدید کوشش کرتا ہے۔سلفر کا مزاج اپنی رائے پر اَڑنے والا،کسی طرف نہیں جھکتا۔ذہنی طور پر غیر حاضر(پروفیسر قسم کے ) زندگی کی عملی صورت کو نظر انداز کرتا ہے۔سلفر کے مریض کے اندر مخالف جنس کے بارے میں دلکشی پائی جاتی ہے ۔ بہت سے سلفر کے مریض عورتوں کے پیچھے پھرنے والے عادی مرد ہوتے ہیں۔اس کی بہت سی داشتائیں ہوتی ہیں ان سے محبت صرف دکھاوے کی ہوتی ہے۔لیکن مایوسی کی حد تک جذباتی اور عملی طور پرانحصاراپنی بیویوں پر ہوتا ہے۔ سلفر کے مریض خود نمائی کو پسند کرتے ہیں۔ خود اعتمادی پائی جاتی ہے۔خدا داد صلاحیت اور دلیری پائی جاتی ہے۔سلفر کے مریض اگر زیادہ تعلیم یافتہ نہ بھی ہوں لیکن اپنی ذہانت سے سیکھتے ہیں (پیدائشی طور پرذہین ہوتے ہیں) اپنے خاندان کا محافظ،بیوی کو” ملکہ“ کی طرح دیکھتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں فکر مندہوتا ہے۔
یہ تو تھی سلفر کی شخصیت اب اس کے اندر دوسری علامات میں تعفن والی بیماریاں،جلدی امراض،بواسیر کے مسوں میں جلن ، معدے اور گلے میں بھی جلن۔پاوں میں رات کو جلن ،صبح کی بھوک غائب،سن یاس کی تکالیف،رات کے پچھلے پہرزیادہ گھبراہٹ ،سخت تعفن والے بخار ، جوڑوں کی تکالیف،اعصابی ریشوں پر نکلنے والے چھالے (ہرپیز) ،صبح کے اسہال۔انجیکشن کے بد اثرات ۔ آنکھوں کے سامنے چنگاریاں اور شعلے ناچیں۔ناک سے بد بو آتی ہے ۔ ہیضہ کی وباءپھیلی ہوئی ہو تو حفظِ ماتقدم کے طور پر استعمال کروانی چاہیے۔ پروسٹیٹ گلینڈز میں سلفر کو تھوجا کے ساتھ ملا کر استعمال کرنی چاہیے۔مردانہ اور زنانہ کمزوریوں میں اور عورتوں کے بانجھ پن میں بھی مفید ہے۔
طالب دعا
خالد محمود اعوان