ذہنی صحت

ایک عظیم روحانی عالم اپنے ایک معرکۃ الآراء خطاب ’’عرفان الٰہی‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’دنیا میں آج تک اس بات کو بہت کم سمجھا گیاہے بلکہ انبیاء اور اولیاء کو علیحدہ کر کے میں کہہ سکتاہوں اور کسی نے سمجھا ہی نہیں کہ بہت سی بدیاں ایسی ہیں جو شرعی بدیاں ہیں ،لیکن ان کا ارتکاب کرنے والا کسی شرعی گناہ کا مجرم نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی جسمانی بیماری کا مریض ہوتاہے۔یہ ایک وسیع مضمون ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھے خاص علم دیاہے … اس وقت بعض بڑے بڑے ڈاکٹروں کی توجہ اس طرف ہو رہی ہے لیکن تاحال ان کی تحقیقات عالم طفولیت میں ہے۔ مگر اس بارہ میں مجھے جو علم دیاگیاہے وہ ایسا وسیع ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں کی تحقیقات سے بہت وسیع ہے … جس سے اس نتیجہ پر پہنچاہوں کہ شرعی گناہوں کی ایسے رنگ میں تقسیم ہو سکتی ہے کہ فلا ں قسم کا گنہگار ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے اور فلا ں قسم کا بزرگ کے پاس ۔ مَیں نے یہاں تک تو تحقیقات کرلی ہے کہ بعض انسان شرعی گناہ جسمانی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں …بات یہ ہے کہ جسم اور روح کا ایک دوسرے پر بڑا اثر ہوتاہے ۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس کے متعلق بہت تفصیل سے لکھاہے اور بتایاہے کہ جب جسم میں بیماری پیدا ہوجائے تو روح میں بھی پیدا ہوجاتی ہے۔… اس علم کا دروازہ آپ کے خلفاء اس کو اور زیادہ وسیع کریں گے ۔ مَیں نہیں جانتا مجھے اس کووسعت دینے کا موقعہ ملے گا یا نہیں‘‘

(عرفان الٰہی صفحہ 36-35)

آپ مزید فرماتے ہیں:
’’مجھے اگر فرصت ملی تو مَیں ان تحقیقات کومکمل کروں گا ۔ لیکن اگر مَیں نہ کرسکوں تو تم لوگ یاد رکھو کہ روحانی امرا ض کے بعض ایسے علاج ہیں جو ڈاکٹروں کے ذریعہ ہوسکتے ہیں۔ اس بات کومدنظر رکھ کرتم اپنے طورپر کوشش میں لگے رہو۔ اور اپنی تحقیقات سے ان لوگوں کی امداد کرو جن کی توجہ اس طر ف ہو رہی ہے اور جو اس کے لئے کوشش کررہے ہیں تاکہ دنیا میں ایک نیا انقلاب واقع ہو اور دنیا ایک قدم اور ترقی کرے ۔فی الحال مَیں اس قدر بیان کر دیتاہوں کہ بعض روحانی بیماریاں ایسی ہیں جن کے علاج کے لئے کسی عارف اورولی اللہ کے پاس نہیں جانا چاہئے بلکہ کسی ڈاکٹر اور طبیب کوتلاش کرنا چاہئے کیونکہ اس قسم کی بیماریاں یا تو پیٹھ کے اعصاب کی کمزور ی اور نقص سے ہوتی ہیں اور یا دماغ کے اعصاب کے نقص یا خاص خاص بیماریوں کے نتیجہ میں ہوتی ہیں۔ مثلاً بعض اوقات زنا ایک اخلاقی یا مذہبی جرم نہ ہوگا بلکہ کسی خاص دماغی بیماری کا نتیجہ ہوگا۔ اسی طرح بعض ڈاکے ،بعض چوریاں، بعض جھوٹ خاص خاص نقصوں کے نتیجہ میں ہوں گے۔ ان کا علاج روحانی ریاضتوں سے اس عمدگی سے نہیں ہو سکتا جتنا جسمانی علاج کے ذریعہ۔

اسی طرح آپ فرماتے ہیں:
’’مگرابھی چونکہ میر ی تحقیقات مکمل نہیں ہو سکیں اس لئے مَیں اس مضمون کو اس وقت تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتااور کسی او ر وقت پر چھوڑتا ہوں ۔ اپنے لئے یا آ پ میں سے کسی کے لئے جس کو خداتعالیٰ اسے بیان کرنے کی توفیق دے‘‘

(عرفان الٰہی صفحہ 38-37)

بعض بیماریاں جو بظاہر اخلاقی اور روحانی معلوم پڑتی ہیں وہ دراصل جسمانی بیماریاں ہیں اور ان کا علاج ہومیو دوائیوں سے احسن رنگ میں کیا جا سکتاہے۔ ان میں سے صرف چند ایک نمونے کے طورپر قارئین ملاحظہ فرمائیں۔

  • لیکسس (Lechesis) کے ذکر میں فرمایا: ’’ لیکسس کے مریض خطرناک قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ شروع شروع میں وہ سوچنے لگتے ہیں کہ سب لوگ ان کے خلاف باتیں کررہے ہوتے ہیں۔ یا ان کے کھانے پینے میں کچھ ملا دیا گیاہے۔ وہ اپنے قریبی عزیزوں پر بھی شک کرتے ہیں۔ بعد میں یہ علامتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ایسے مریضوں کو لیکسس دینا ضروری ہے۔

(کتاب ہومیو پیتھی ۔جدید ایڈیشن مشتمل جلد اول و دوم صفحہ547)

  • اسی دواکے سلسلہ میں آپ فرماتے ہیں : ’’ایک مریض بچی میرے پاس لائی گئی جو چوری کی عادت میں مبتلا تھی۔ پوچھنے پرکہتی تھی اللہ کا حکم ہوتاہے اس لئے کرتی ہوں۔ ایسے مریضوں کا علاج لیکسس سے کرنا چاہئے ۔ جوخدا کے حکم پر اسی کی نافرمانی کریں …مذہبی رجحانات غیر معمولی شدت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ شدت لیکسس سے تعلق رکھتی ہے۔ مگر اس کی سب سے خطرناک علامت یہ ہے کہ ان کے دل میں بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہوتاہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ وہ کسی کو قتل کردیں…… ا یسے مریض بعض دفعہ واقعتاً قتل بھی کر دیتے ہیں یا قتل کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں‘‘

(کتاب ہومیو پیتھی صفحہ548)

پھرفرماتے ہیں: ’’ڈاکٹر کینٹ کا خیال ہے کہ اس دواکا کسی خاص علاقے سے تعلق نہیں بلکہ تمام دنیا میں ہر جگہ اس دوا کومفید پایا گیا ہے۔لیکسس کے زہر میں جو شر اور تیزی پائی جاتی ہے وہ دنیا کے تمام بدکار انسانوں اور بگڑے ہوئے مزاجوں میں پائی جاتی ہے۔یعنی شدید حسد، شرارت ،فساد وغیرہ کا رجحان‘‘۔

(ہومیوپیتھی علاج بالمثل صفحہ540)

یعنی ایسے مزاج والے لوگوں کا علاج ہومیو دوائی لیکسس (Lachesis) سے ممکن ہے ۔

ایک اور ہومیو پیتھک دوا ‘سلفر’ (Sulpher) کے بارہ میں حضورؒ فرماتے ہیں:

’’سلفر کے مریض کو فلسفی بننے کا بہت شوق ہوتاہے اور کچھ مزاجاً فلسفی ہوتے بھی ہیں۔ اگر یہ شوق جنون کی حد تک بڑھ جائے تو اونچی طاقت میں سلفر کی ایک دو خوراکوں سے کافی فرق پڑ جاتاہے‘‘

(ہومیوپیتھی علاج بالمثل صفحہ784)

*Cannbis Ind. نامی دوائی کے سلسلہ میں حضورؒ فرماتے ہیں :
’’کینبس کا مریض …مسلسل بے تکی بحثیں کرتا رہتا ہے۔ اس کی سوچ میں منطقی ربط نہیں رہتا… اچھی بھلی بات کرتے کرتے بغیر دلیل اور بغیر منطق کے کچھ اوربولنے لگتا ہے‘‘

Cladium دوائی کے بارہ میں فرماتے ہیں:
’’کلیڈیم کی خاص علامت یہ ہے کہ مریض کوئی کام کرکے سوچے گا کہ اس نے کیا ہے یا نہیں ۔کوئی بات کسی کو کہنی تھی، نہ معلوم کہی کہ نہیں … ایسے مریض ذہنی طورپر بہت تھک جاتے ہیں اور آخر علمی کام ان کے بس میں نہیں رہتا‘‘

(صفحہ185)

*حضور رحمہ اللہ ایک ہومیو دوائی کی تشخیص کے لئے مریض کے مزاج کے بیان میں فرماتے ہیں:

آرم میٹیلیکم (Aurum Met) کا مریض بظاہر اپنی ذات میں گُم، مایوس، پژ مردہ دکھائی دیتاہے لیکن جب اُسے کسی بات پر غصہ دلایا جائے تو اس کی اپنی جان لینے کی خواہش دوسروں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور وہ قتل تک کرنے پر آمادہ ہو جاتاہے‘‘

(صفحہ111)

*حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک اہم ہومیو دوائی کیمومیلادینے کے لئے مریض کی پہچان اور اس میں پائی جانے والی علامات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’کیمومیلا (Chamomilla) کے مزاج کی یہ مستقل علامت ہے کہ ا س کے مریضوں میں فراخ دلی کی کمی ہوتی ہے۔ طبیعت میں کسی قدر خساست پائی جاتی ہے ۔کسی دوسرے کی پرواہ نہیں کرتے ۔نہ کسی کی تکلیف محسوس کرتے ہیں نہ کسی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں ۔ لیکن ہر وقت اپنے معاملہ میں بے حد زودحس ہوتے ہیں۔ ہر وقت اپنی ذات سے چمٹے رہتے ہیں اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی پیش نظر رہتاہے۔ دوسروں پر اچانک غصہ آنا بھی اسی مزاج کا حصہ ہے‘‘

( صفحہ271)

قارئین کوعلم ہے کہ آپ کی والدہ محترمہ کا نام مریم تھا اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ڈاکٹر ہوکر ڈاکٹر بنے۔ ان کی اس خواہش کو اللہ تعالیٰ نے کمال شان سے پورا فرمایا۔ اور آ پ واقعی ابن مریم ثابت ہوئے۔ آپؒ کے مسیحی انفاس سے ہزاروں لاکھوں مریضوں نے شفا حاصل کی۔

خلافت سے پہلے بھی آپ نے ہومیوپیتھی علاج سے لوگوں کو مستفید فرمایا ۔پھر جب خدا تعالیٰ نے آ پ کو خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز فرمایا اور اس کے خاص تائید اور رہنمائی آپ کو حاصل ہوئی تو آ پ کے فیض کا دائرہ اور زیادہ وسیع ہوگیا ۔ آپ نے لاکھوں لوگوں کو قریب سے دیکھا، ان کی اخلاقی اور روحانی اقدار پر آپ کی گہری نظر تھی اس لئے آپ کی رائے نہ صرف بحیثیت ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے بلکہ ایک عظیم روحانی پیشوا ہونے کے بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

*ہم پھر اصل مضمون کی طرف لوٹتے ہیں۔ حضر ت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ ایک اور ہومیو دوائی ’’ ٓیوڈم‘‘ (Iodum) سے متعلق مریضوں کے مزاج کی تشخیص کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں :

’’اس میں شدید غصّے کے جذبات پید اہوتے ہیں … اگر ایسے مریض کا بچپن میں آیوڈین سے علاج نہ کیا جائے تو بڑا ہو کرنہایت خطرناک مجرم بھی بن سکتاہے۔ اور بغیر کسی محرک کے قتل وغارت میں ملوث ہو سکتا ہے‘‘

(صفحہ469)

نکس وامیکا (Nux Vomica) دوائی میں بھی یہ خطرناک علامت پائی جاتی ہے کہ ا س کی مریضہ کے دل میں بے اختیار یہ خواہش ابھرنے لگتی ہے کہ وہ اپنے بچے کو آگ میں جھونک دے یا بے حد محبت ہونے کے باوجود خاوند کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ پھر وہ اس ارادہ سے سخت خوفزدہ بھی ہو جاتی ہے…اگر مریض کی دیگر علامتیں آیوڈین کا تقاضا کرتی ہوں تویہ دوا بہت مفید ثابت ہوگی‘‘۔

(صفحہ470)

ہومیو دوائی نکس وامیکا (Nux Vomica) کے مزاج کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا :

’’نکس وامیکاکی ایک دلچسپ علامت یہ ہے کہ جو شخص بدطینت اور کینہ پرور ہو ، ہروقت دوسروں کی عیب جوئی کرتا رہے اور ان میں نقص تلاش کر نے کا عاد ی ہو تونکس وامیکا اونچی طاقت میں دینے سے ایسے مریضوں کی ذہنی حالت درست ہونے لگتی ہے اور ان میں حسد کا مادہ کم ہو جاتاہے۔ لیکن ہر گز ضروری نہیں کہ نکس وامیکا کے ہر مریض میں حسد کا رجحان پایا جائے‘‘

(صفحہ634)

ایک اور دوا کے بارہ میں فرماتے ہیں:

’’ٹرنٹولا (Tarentulah) کا مریض عموماً یہ خیال کرتاہے کہ اس کی ہتک کی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر کھولتا رہتاہے اور سکیمیں بناتا ہے۔ اگر کوئی مریض چالاک ہو اور ساتھ کچھ پاگل بھی ہو تو اسے ٹرنٹولا اونچی طاقت میں دینا چاہئے۔ ٹرنٹولا کا مریض بیمار نہ بھی ہو تو ہر بیماری کا ڈرامہ رچا سکتا ہے‘‘

(صفحہ793)

…ایک اور سماجی اور اخلاقی خرابی کے سلسلہ میں حضورؒ فرماتے ہیں:

’’سلفیورک ایسڈشراب کی پرانی عادت توڑنے کی بہترین دوا ہے …ایک بڑے گلاس میں پانی میں خالص سلفیورک ایسڈ کا ایک قطرہ ملادینا چاہئے ۔اس پانی کو دن بھر تین خوراکوں میں ختم کردینا چاہئے …… دنیائے طب میں غالباً اس مرض کی اس سے بہتر کوئی دوا نہیں‘‘

(ایضاً صفحہ790)

’’سگریٹ کی عادت چھڑوانے کے لئے بھی حضورؒ اسی دوا کو تجویر فرماتے ہیں‘‘

(صفحہ869)

للیم ٹگ (Lillium Tig) نامی دوا کے بارہ میں آپ ؒ فرماتے ہیں :
’’للیم ٹگ کامریض متشدد مذہبی خیالات کا مالک ہوتاہے۔ اگر وہ اذیت پسند اور ہسٹریائی مزاج بھی رکھتاہو تو یہ دوا اس لئے بہترین ہے‘‘

(صفحہ565)

ایک اور اخلاقی بیماری کے علاج کے لئے ایک مفید دوائی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’فلورک ایسڈ (Fluoric Acid) ایسے لوگوں کے لئے بہترین دوائی ہے جو جنسی بے راہروی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنے آپ کو بالکل بیکار اور ناکارہ کرلیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود بدنظری سے باز نہیں آتے اور نظربازی کو اپنا پیشہ بنا لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے فلورک ایسڈ، پکرک ایسڈ، لائیکو پوڈیم اور سیپیا اپنے اپنے مراج کے مریضوں میں بہترین ثابت ہوتی ہیں‘‘

(صفحہ 391)

ایک اور اہم دوا ’’نیٹرم میور‘‘ (Natrum Mur) کے بارہ میں فرماتے ہیں :
’’نیٹرم میور کا مریض فرضی محبت میں مبتلا ہو جاتاہے۔ بعض بوڑھی عمر کی عورتیں ایسی فرضی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ اگر محبت کا علاج دوا سے ممکن ہو تو ایسی عورتوں کا علاج نیٹرم میور سے ہو سکتاہے‘‘

(صفحہ691)

پلمبم (Plumbum Met) نامی دوا کے بارہ میں نہایت لطیف انداز میں فرماتے ہیں :
’’پلمبم کے بارہ میں کہا جاتاہے کہ یہ دھوکہ دہی اور بے ایمانی کرنے والوں کے لئے شفا کا اثر رکھتی ہے۔ اگریہ بات درست ہے تو ساری دنیا میں کثرت سے استعمال ہونی چاہئے‘‘

(صفحہ679)

مندرجہ بالا ان چند نمونوں میں سے ہی قارئین کرام کو یہ اندازہ ہو گیاہوگا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کس قدر وضاحت کے ساتھ بعض ذہنی ،اخلاقی اور روحانی بیماریوں کے لئے بعض مؤثر دوائیں تجویز کی ہیں ۔خاکسار کو اس بات کا بھی یقین ہے کہ حضور رحمہ اللہ کے بہت پیارے اور لطیف انداز بیان سے قارئین کرام کے ذہنوں میں ان مریضوں کے خاکے ضرور ابھر کر سامنے آئے ہوں گے۔ اور اپنے اردگرد کے ماحول میں ان سے ملتی جلتی شخصیتوں کے نمونوں سے ان کا واسطہ پڑا ہوگا ۔ اور وہ چاہ رہے ہوں گے کہ کسی طور سے ایسے مریضوں کی مدد کریں ۔ اب یہ خوشخبری ہے کہ ان ہومیو ادویات کی مدد سے آ پ ان کے دکھوں کو دور کر سکتے ہیں۔ انشاء اللہ۔

چونکہ خاکسار کا تعلق ہومیو طریق علاج سے ہے اس لئے خاکسار کو علم نہیں کہ ہومیوکے علاوہ دوسرے طریق علاج میں بھی کس حد تک مریض کے مزا ج اور ذہنی اور اخلاقی حالات کو مدنظر رکھ کر دواؤں کی تشخیص کی جاتی ہے ۔مگر امید ہے کہ دوسرے اطباء بھی حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد کو مدنظر رکھیں گے جس میں آپؓ فرماتے ہیں:

’’تم لوگ یاد رکھو کہ روحانی امراض کے بعض ایسے علاج ہیں جو ڈاکٹروں کے ذریعہ ہو سکتے ہیں ۔ا س با ت کو مدنظر رکھ کر تم اپنے طورپر کوشش میں لگے رہو اور اپنی تحقیقات سے ان لوگوں کی امداد کرو جن کی توجہ اس طرف ہو رہی اور جو اس کے لئے کوشش کررہے ہیں تاکہ دنیا میں ایک نیا انقلاب واقعہ ہو اور دنیا ایک قدم اور ترقی کرے ۔آمین‘‘

(عرفان الٰہی صفحہ37۔ 1919ء)


(صدیق اشرف علی ۔انڈیا)

بشکریہ الفضل

Similar Posts