٭-میڈورائینم سوزاک کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا ہے۔اس کا استعمال دبی ہوئی موروثی سوزاکی بیماریوں میں ہوتا ہے اور بہت مفید ثابت ہوتی ہے ۔ موروثی سوزاک میں جو مقام میڈورائینم کا ہے وہی موروثی سفلس میں سفلی نم {Syphilinum} کا بیان کیا جاتا ہے ۔اگر یہ دوائیاں استعمال نہ کی جائیں تو یہ بیماریاں زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں اور پیچھا نہیں چھوڑتیں،بار بار حملہ کرتی ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ کسی انسان کوخود یہ بیماریاں لا حق ہوئی ہوں،موروثی طور پر ان میں یہ علامتیں پائی جاسکتی ہیں۔
٭-ہومیو پیتھک نظریہ یہ ہے کہ سفلس دوسرے طریقہ علاج میں جڑوں سے کبھی نہیں اکھڑتی بلکہ مختلف بھیس بدل لیتی ہیں اور جب اسے ساز گار حالات میسر آئیں تو پھر اصلی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے۔جدید ترین ایلوپیتھک ریسرچ سے بھی یہ ہومیو پیتھک نظریہ درست ثابت ہوا ہے۔ایڈز پر امریکہ میں ہونے والی ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایڈز کے بہت سے مریضوں کو اچانک سفلس بھی ہو گیا حالانکہ پہلے سفلس کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔جب ان کے خاندانی حالات معلوم کئے گئے تو بعضوں کے متعلق یقینی طور پر علم ہوا کہ ان کے باپ دادا میں سے کسی کو سفلس کی بیماری ہوئی تھی ۔یہ ناپید بیماری مختلف عوارض کے بھیس میں ہمیشہ جسم میں موجود رہی۔یہی حال سوزاک کا بھی ہے۔یہ بھی نسلاً بعد نسل جسم میں موجود رہتا ہے۔اگر اسے جڑ سے نہ اکھیڑا جائے تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج بھی سطحی ثابت ہوتے ہیں۔ان دواوں میں سے جو دبے ہوئے سوزاک کا قلع قمع کر سکتی ہیں ان میں ایک”میڈورائینم “ہے جس کی بہت تعریف کی جاتی ہے اور بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہر علاج میڈورائینم سے شروع کرنا چاہیے۔اگر سوزاک کی دبی ہوئی علامتیں موجود ہوئیں تو میڈورائینم کی بہت اُونچی طاقتیں انہیں اچھال کر باہر لے آئیں گی۔ اس کا علاج دراصل دبے ہوئے سوزاک کا علاج ثابت ہو گا اور اس کے بد اثرات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔
٭-وہ عمومی بیماریاں جو سوزاک کے دب جانے سے جسم میں زہریلے رجحانات کے طور پر چھپی رہتی ہیں جیسے دمہ ،بچوں کا سوکھا پن ،دائمی نزلہ ،داد اور خاص قسم کے مسے۔ حسبِ حالات کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں ۔ ان میں میڈورائینم دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ایسے مسے جو تھوجا کے قابو میں نہیں آتے ان میں میڈورائینم دینا چاہیے۔
٭-ایسی عورتیں جن کو شادی کے بعد بعض تکلیفیں مثلاًحیض کے ایام میں بے قاعدگی ،درد اور اعصابی کمزوری وغیرہ آ گھیرتی ہیں۔ انہیں بھی میڈورائینم کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
٭-’میڈورائینم “ میں سیاہ رنگ والے خون کی ماہواری ہوتی ہے ۔ایسے خون کو دھونایا صاف کرنا مشکل ہوتا ہے۔اس کی دوا ہے۔
٭-’میڈورائینم “خواتین کی خرابیوں میں جس کا تعلق پرانی پیڑو کی بیماریوں سے ہو کام آتی ہے۔
٭- ”میڈورائینم “کالیکوریا پتلا، تیزابیت اورچھیلن پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ لیکوریا سے مچھلی کی طرح کی بو آتی ہے۔
٭- میڈورائینم کا مریض سخت ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے پسینہ بہت آتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں بعض دفعہ اس کی ہتھیلیاں جلتی ہیں مگر اس کے باوجود ہاتھ باری باری ٹھنڈے بھی ہو جاتے ہیں۔کبھی دایاں ،کبھی بایاں اور بعض دفعہ دونوں سخت ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔
٭- میڈورائینم کووجع المفاصل اور بائی کی عمومی دردوں میں بہت مفید بتایا جاتا ہے۔
٭- میڈورائینم میں بہت سی علامتیں عموماً سورج چڑھنے کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک رہتی ہیں لیکن بعض دوسری علامتیں رات کے وقت بہت بڑھ جاتی ہیں۔
٭-میڈورائینم میں رات کو بڑھنے والی تکلیفوں میں بھوتوں یا مردہ لوگوں کا خوابوں میں آنا اورساری رات ڈراونی خوابیں آتے رہنا اس کی نمایاں علامت ہے۔
٭- میڈورائینم میں پیشاب کی تکلیفیں بھی رات کو بہت بڑھ جاتی ہیں۔مریض کو بار بار اُٹھنا پڑتا ہے۔ ایسے مریضوں کے پراسٹیٹ گلینڈز یعنی غدہ قدامیہ میں بھی ہر قسم کے ورم اور سوزش کی علامتیں ملتی ہیں۔
٭- میڈورائینم میں جسم میں سوئیاں چبھنا اور چھپاکی نکلنا جس کاتعلق شور سے بھی ہوتا ہے ۔
٭-میڈورائینم میں پاوں اورٹانگوں پر ورم بھی ملتے ہیں ۔گھٹنے تک ٹانگیں بے حد ٹھنڈی ہو جاتی ہیں ۔بعض دفعہ ایسے مریضوں کے تلوے اتنے زود حس ہو جاتے ہیں کہ مریض تلووں کے بل چل ہی نہیں سکتا۔
٭- میڈورائینم میں مریض کا وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا ہے ۔
٭-میڈورائینم میں بچوں یا لڑکیوں وغیرہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے۔ایک دم ڈر کے پیچھے دیکھتے ہیں جیسے کوئی پیچھے سے دبے پاوں آ گیا ہو۔
٭-میڈورائینم میں ایسا احساس جیسے کچھ چہرے انہیں جھانک رہے ہیں ۔یہ احساس فاسفورس میں بھی پایا جاتا ہے۔بیماریوں کے بعض زہروں کے اثر سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں اندھیرے سے ڈرنے اور گرنے کا خوف پایا جاتا ہے۔سر کی جلد میں تناو جیسے پٹی بندھی ہوئی ہو۔
٭-میڈورائینم جلدی امرض اور سر میں سخت سکری کی تکلیف میں بھی کامیاب علاج ہے۔ اس کی بالوں کی علامات نٹرم میور سے ملتی ہیں اور دونوں کا تعلق سوزاکی بیماریوں سے ہے۔بعض اوقات صرف میڈورائینم دینے سے ہی ان بیماریوں کا شافی علاج ہو جاتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں معمولی ذہنی تناوسے آنکھوں کے سامنے چیزیں تھرکنے لگتی ہیں اور نظر دھندلا جاتی ہے اور ایک جگہ نہیں ٹھہرتی ۔کالے یا بھورے دھبے بھی نظر آنے لگتے ہیں اور بعض دفعہ دو چیزیں دکھائی دیتی ہیں ۔اگر یہ علامتیں مزمن ہو جائیں تو بہت اچھی دوا ہے۔
٭-میڈورائینم میں وہمی اور خیالی چیزیں نظر آنے لگیں،آنکھوں میں تناوہو،اعصاب کھچے ہوئے محسوس ہوں اور آنکھوں کی پلکیں جھڑ جائیں تو بھی میڈورائینم سے علاج ہو سکتا ہے ۔
٭-میڈورائینم مزمن نزلہ میں بہت اُونچی طاقت میں دیاجائے توبہت مفید ہے۔اگر سوزاکی اثر بہت گہرائی تک موجود ہو اور عام دوائیوں کی پہنچ سے باہر ہو۔ تومیڈورائینم CM(ایک لاکھ طاقت) میں یا کم از کم دس ہزار طاقت میں دی جائے ۔
٭-میڈورائینم پرانے بہنے والے نزلہ میں اعلیٰ درجہ کی دوا ہے۔
٭- اعصابی تناوکی وجہ سے غیر معمولی بھوک لگے اور گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ کھانے کو دل چاہے لیکن کھانا کھا کر مریض کو تسکین نہ ملے،کچھ نہ کچھ اور کھانے کو دل چاہے۔اسی طرح ایسی پیاس محسوس ہو جو پانی پینے کے باوجود بہ بجھے تو ایسی کیفیت میں بھی میڈورائینم مفید ہے۔
٭-میڈورائینم اگرجگر کی خرابی کی وجہ سے پیٹ میں پانی بھر جائے ۔بن ران کے گلینڈز کی خرابی اور سوزش میں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے۔
٭-میڈورائینم میں قبض کی علامت یہ ہے کہ گول اور سخت اجابت ہوتی ہے اور پیشاب گہرے رنگ کا ،کم مقدار میں اور سخت بدبودارہوتا ہے اور بہت کم آتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں ایسے مریض جن کے جوڑوں میں درد کی وجہ سے چلتے پھرنے میں دقت ہو اور وہ لنگڑے سے ہو جائیں ،ان میں بھی امکان ہے کہ مفید ثابت ہو۔
٭-میڈورائینم کثرت پیشاب جو شوگر کی وجہ سے نہیں بلکہ اعصابی تکلیف کی وجہ سے ہو ، اس میں بھی یہ دوا بہت مفید ہے۔
٭-” میڈورائینم “ میں احتلام کے نتیجے میں شدید کمزوری ،نامردمی ،سوزاکی پیپ جس کے ساتھ پیشاب کی پوری نالی دکھتی ہے ۔اورمثانے کی نالی میں سوزش پائی جاتی ہے۔
٭-” میڈورائینم “ میں پیشاب کرنے کے بعدشدید ٹھنڈک اور کپکپاہٹ پائی جاتی ہے۔پیشاب میں جلن جیسے ابتدائی گنوریا میں پایا جاتا ہے۔
٭-میڈورائینم کاگردے ،مثانے اور پراسٹیٹ گلینڈز کی تکلیفوں سے گہرا تعلق ہے۔اگر گردے کا درد پتھریوں کی وجہ سے نہ ہو بلکہ سوزش کی وجہ سے ہو اس کی مستقل دوا تلاش کرنی چاہیے جو میڈورائینم بھی ہو سکتی ہے۔
٭-میڈورائینم کا بہرے پن سے بھی تعلق ہے ۔بعض اوقات کان میں ایسی خرابی جس کا تعلق اعصاب سے ہوتا ہے اور بظاہر کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی ۔ایسا بہرہ پن جو مزمن ہو جائے اور بڑھتا چلا جائے اس میں استعمال کر کے دیکھنا چاہئے ۔ میڈورائینم بروقت دینے سے فائدہ ہوتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں کھانا چباتے وقت دانت بہت حساس ہو جاتے ہیں۔اس طرح منہ میں زخم جو کٹے پھٹے کناروں والے ہوں ،بننے لگتے ہیں۔
٭-میڈورائینم ٹخنوں کی مزمن تکلیفوں میں بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے۔
٭-میڈورائینم بعض اوقات اندرونی اعضاءکی مردانہ اور زنانہ بیماریوں میں جو دبے ہوئے سوزاک کی آئینہ دار ہوں بالکل متضاد علامات واقع ہوتی ہیں ۔ جذبات میں یا تو غیر معمولی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے یا پھر جذبات بالکل ختم ہو جاتے ہیں بلکہ جنسی تصور سے ہی نفرت ہو جاتی ہے ۔ مریض درمیانی حالت میں نہیں رہتا،ایک انتہا یا دوسری انتہا پر۔
٭-میڈورائینم کادمہ سے بھی گہرا تعلق ہے۔دمہ کے لئے عموماً نیٹرم سلف بہت اہم دوا سمجھی جاتی ہے۔جن بچوں میں سوزاک کی علامتیں موروثی طور پر پائی جائیں ان کے دمہ میں اکثر نیٹرم سلف مفید ہے لیکن علامتوں کو واضح کرنے کے لئے میڈورائینم بہتر کام کرتی ہے۔
٭-کلکیریا سلف بھی دمہ میں ایک بہت نمایاں اثر دکھانے والی دوا بتائی جاتی ہے۔اگر بلغم بہت گہرا جم جائے اور نکالنے میں سخت دقت پیش آئے اوردوسری علامتی دوائیں کام نہ کریں تومیڈورائینم کام آ سکتی ہے۔
٭-میڈورائینم جوڑوں کی تکلیف میں جس میں بجلی کے کوندوں کی طرح درد کی لہریں اُٹھتی ہیں اور چھاتی میں زیادہ شدت سے درد محسوس ہوتا ہے۔
٭-میڈورائینم میں ریڑھ کی ہڈی کے منکے ایک طرف ہو جائیں اور اعصاب دب جائیں ، دردیں ٹانگوں کی طرف اُترنے والی ہوں یا شیاٹیکا (Sciatica) ہو جائے تو ان سب تکلیفوں میں گہری چھان بین سے علامتی دوا تلاش کرنی چاہئے۔اگر اس طرح تشخیص نہ ہو سکے یا تشخیص کام نہ کرے تو پھر میڈورائینم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔اُونچی طاقت میں دے کرہفتہ دس دن اس کا اثر دیکھنا چاہیے۔
٭-میڈورائینم میں کمر کی تکلیف کااثر ٹانگوں پرہوتا ہے۔اس میں ایسا بھاری پن پیدا ہو جاتا ہے اور لگتا ہے ٹانگیں لکڑی کی بنی ہوئی ہیں۔یہ بھی میڈورائینم کی ایک پہچان ہے۔
٭-میڈورائینم میں بعض اوقات تشنج سے دورانِ خون بند ہو جاتا ہے۔اس دوا میں بھی تشنج پایا جاتا ہے،خاص طور پر پنڈلیوں میں ۔میڈورائینم میں تشنج تلووں میں بھی ہوتا ہے اور پاوں میں مڑنے اور اندر کی طرف سکڑنے کا احساس ہوتا ہے۔
٭-میڈورائینم کی کئی تکالیف سورج کی تمازت سے بڑھتی ہیں ۔ مرطوب موسم میں اور سمندر کے کنارے آرام آتا ہے۔لیکن بعض تکلیفیں رات کو بڑھتی ہیں ۔
٭-میڈورائینم میں برف کے ٹھنڈے پانی کی شدید پیاس، برف بھی کھائے۔سنگترہ اور کچے پھلوں کو کھانے کی شدید طلب۔ مزید مٹھائیاں ،نمک ،چربی والی خوراک کھانے کی خواہش۔اورچکنی خوراک سے نفرت پائی جاتی ہے ۔
٭- ” میڈورائینم “ کے مریض بچے احمق اور ان کی ذہنی گروتھ نا مکمل ہوتی ہے۔ناک گندا،ٹانسلز بڑھے ہوئے۔نتھنوں سے گاڑھی ،پیلی میوکس آتی ہے۔منہ سے سانس لینے کی وجہ سے ہونٹ موٹے ہو جاتے ہیں۔
٭- ” میڈورائینم “ میں ناک کے پچھلے والے سوراخ سے مواد کا حلق میں مسلسل ٹپکنااور اخراجات کا نکلناپایا جاتا ہے۔
٭- ٭- ” میڈورائینم “ کے مریض کے اندررات کو ہائی انرجی پائی جاتی ہے۔سونے میں بہت مشکل اورتگ و دو کرنی پڑے۔رات کو ہائی انرجی کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔
٭- ” میڈورائینم “ کے مریض کا وقت بہت آہستگی سے گزرتا ہے خوفزدہ کہ وہ پاگل ہونے جا رہا ہے ۔
٭- ” میڈورائینم “ کا مریض یا مریضہ بغیر رونے کے اپنی بات نہ کر سکے افسردگی، ساتھ خود کشی کے خیالات پائے جاتے ہیں۔
٭- ” میڈورائینم “ کے مریض کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔
٭- ” میڈورائینم “ کا مریض پیٹ کے بل لیٹتا ہے، گھٹنوں کو چھاتی کے ساتھ لگا کر سوتا ہے۔
٭- ” میڈورائینم “ جن خاندانوں میں سوزاک کی بیماری ورثہ میں ملی ہو کے جوان مردوں میں دل کی شکایات ۔شدید انفیکشن کی ہسٹری پائی جاتی ہے ۔
٭- ” میڈورائینم “ میں جلد پیلی،جس میں مسلسل اور شدید خارش جس میں اضافہ رات کو اور اس کے بارے میں سوچنے سے ہوتا ہے۔
٭- ” میڈورائینم “ بچوں کی پاخانے کی جگہ سرخ ۔تانبہ کے رنگ جیسے داغ پائے جاتے ہیں ۔
٭- ” میڈورائینم “ میں پھپھوندی کی طرح کا ایک جلدی مرض پایا جاتا ہے۔
٭- ” میڈورائینم “ میں گردوں کی جالی دار (اسفنجیہ )ساخت کی سوزش ۔ پیشاب کھل کر اور پیلا۔ رات کو مسلسل پیشاب کرنے کا عمل۔مثانے میں عدم حرکت یا سستی کی وجہ سے پیشاب کی دھار کمزورہوتی ہے۔پیشاب کے زائد اخراج کے بہت سے کیسز کو ٹھیک کیا ہے۔
٭- ”میڈورانم“ میں نیچے کمر سے اوپر والے پانچ مہروں میں درد اور چھونے سے حساسیت پائی جائے۔
٭- ”میڈورانم“ میں مقعد کی ہڈی،دمچی کی ہڈی اورچوتڑوں کے پیچھے کی طرف دردیں اس کے ارد گرد اور نیچے اعضاءمیں اُترتی ہیں۔
٭-”میڈورانم“ میں ٹانگوں میں دردیں جو چوتڑ سے گھٹنوں تک ہوں اور یہ درد صرف چلتے وقت ہوتی ہے۔
٭-”میڈورانم“ بائیں طرف کے عرق النساءکی دواہے۔ڈاکٹر برنٹ فرماتے ہیں کہ میں نے پچاس فیصد مریضوں کو بائیں طرف کے عرق النساءکو اس دوا سے ٹھیک کیا ہے۔
٭- ”میڈورائینم “کی جذباتی علامات میں اس کی شخصیت اپنی انتہائوں پر ہوتی ہے۔چاہے وہ خارجی اشیاءمیں دلچسپی لینے والا( زیادہ تر) یا مطالعہ باطن کرنے (اپنی ذات کی طرف توجہ دینے والا )۔اس کی قوت حیات کے مرکز میں شدت،واضح ،کھلا ،غیر معمولی فعال اور سوشل ہوتا ہے(بیرونی معاملات میں دلچسی لینے والا)۔دوسرے لوگوں سے ملنے میں آسانی۔عمر کا فرق کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ۔ باتونی،اورکوئی جھجک محسوس نہیں کرتا۔
٭- دوسری طرف اس کا مریض دوسری انتہا پر انتہائی شرمیلا،باطنی طور پر بزدل ،تنہائی پسند ہوتا ہے۔
٭-مریض کے اندردونوں انتہائیں پائی جاتی ہیں۔بعض دفعہ شدید جذباتی اورمزاج بدلنے والا ہوتا ہے۔
٭-اس کے اندر کمینگی،شدت پسندی ،جھگڑالو ہوتا ہے۔والدین اور دوسرے بچوں سے جاذب نظر اور دلکش ہوتا ہے ۔
٭-توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ہو سکتی ہے۔اورمعمولی سی بات پر توجہ دینے والا۔
٭- گفتگو میں غلطیاں کرتا ہے۔گزرتے وقت کا تجزیہ کرنے میں مشکل،لکھتے وقت مشکلات کا شکار وغیرہ وغیرہ ہوتا ہے۔