cancer ka ijaj

کینسر او رہومیوپیتھک علاج


ڈاکٹر بنارس خان اعوان، واہ کینٹ 0092-301-5-5533966
کینسر ایک مہلک بیماری ہے ۔ اس کی تاریخ نہایت پرانی اور طویل ہے جس کا سراغ تین ہزارسال قبل مسیح میں ملتا ہے۔اہرامِ مصر میں ایک ممی ملی جس کے کتبے پر لکھا تھا کہ اسے کینسر تھا اور کینسر ایک لا علاج بیماری ہے۔کینسر جو یونانی زبان کا لفظ ہے، کہا جاتا ہے یہ نام بقراط نے دیا۔
کینسر جو اس وقت دل کی بیماری کے بعد اموات کا دوسرا بڑا سبب ہے تاحال ناقابلِ علاج سمجھا جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے جس میں جسمِ انسانی کے خلیات اپنی شکل اور ماہیت تبدیل کر لیتے اور تباہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
طبِ ایلوپیتھی میں کیموتھراپی، ریڈی ایشن اور آپریشن اس کا علاج سمجھا جاتا ہے۔ تاہم آپریشن کے حوالے سے بہت سارے ڈاکٹر حضرات کی رائے کے مطابق یہ بیماری دوبارہ ہو جاتی ہے۔
اور اس علاج میں کینسر کے خلیات کو مارنے میں جو دوائیں استعمال ہوتی ہیں، صحتمند خلیات بھی ان کی زد میں آکر مارے جاتے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال پچاس ہزار لوگ کینسر سے مر جاتے ہیں۔
ہومیوپیتھک فلاسفی کے مطابق تمام بیماریاں قوتِ حیات میں خلل پیدا ہو جانے سے آتی ہیں۔توانائی میں خلل کی بدولت علامات اور نشانیاں رونما ہوتی ہیں۔ اور ہر شخص اپنی انفرادیت کی بنا پر اپنی علامات کا اظہار کرتا ہے۔نیز ہومیوپیتھی طریقہِ علاج میں مریض کو کلی طور پرلیا اور سمجھا جاتا ہے۔
ہومیوپیتھک نظریہ کے مطابق کینسر دراصل جسم انسانی میں موجود کئی بیماریوں کا نتیجہ ہے جو برسوں اندر ہی اندر انسان کو محسوس اور غیر محسوس انداز میں کھائے جا رہی ہوتی ہیں۔نیز ہومیوپیتھک اصطلاح میں اسے ملٹی میازمیٹک بیماری بھی کہا جاتا ہے۔ہومیوپیتھک نظریہ کے مطابق کسی بھی مرض میں موروثیت، ماحول اور مریض کا مزاج نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جیسا کہ سیمنٹ کے فرش پر رکھا ہوا بیج اس وقت تک نہ اُگ سکتا ہے نہ پودا بن سکتا ہے جب تک کہ اسے مناسب زمین میں دبایا اور مناسب کھاد پانی اور ماحول کا بندوبست نہ کیا جائے۔اسی طرح بیماری کو بھی جڑ پکڑنے اور پھلنے پھولنے کے لیے مناسب فضا اور ماحول درکار ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ہر سال پچاس ہزار لوگ کینسر سے مر جاتے ہیں۔


کینسر کے علاج میں ہومیوپیتھی کا کردار


ہومیوپیتھک نظریہ علاج کے مطابق کینسر محض عضویاتی بیماری نہیں ہے بلکہ سارا جسمانی نظام اس کی زد میں آتا ہے۔
ہومیوپیتھی کینسر کے علاج میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے، اسے سمجھنے کے لئے ہمیں ہومیوپیتھی کے اصولوں کو سمجھنا ہو گا۔اور اس کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ ہومیوپیتھی میں کوئی بیماری ناقابلِ علاج نہیں ہے بشرطیکہ مریض میں مناسب توانائی موجود ہو۔توانائی جسے دوسرے الفاظ میں قوتِ حیات کہا جا سکتا ہے۔
ہومیوپیتھک اصولوں کے مطابق ہر بیماری کے پیچھے ایک سبب ہوتا ہے اور ہر سبب کے پیچھے مناسب ہومیوپیتھک دوا موجود ہوتی ہے۔
کینسر کے علاج میں ہومیوپیتھک نوسوڈز، متعلقہ عضویاتی دواؤں، مزاجی دواؤں اور اسباب کے مطابق منتخب شدہ دواؤں کا استعما ل کیا جاتا ہے اور بیشتر کیسوں میں تسلی بخش نتائج حاصل کر لیے جاتے ہیں
کینسر کے متعلق چند اہم حقائق ہمیشہ پیشِ نظر رہنے چاہییں۔
اول: اگر کینسر کی تشخیص بروقت ہو جائے تو قابلِ علاج ہے۔ ایسے مریض جنہوں نے میرے پاس مستقل اور باقاعدگی سے دوا لی ان میں بہت سارے کیسیز میں بہتری دیکھنے میں ملی۔
دوم: کینسر کی بروقت تشخیص ناممکن ہے۔اس کا مطلب ہوا کہ کینسر کے خلاف جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی ہار دی جاتی ہے۔
لیکن ہومیوپیتھی میں ایسا نہیں ہے۔ ہومیوپیتھی میں کینسر کا مرض شروع ہونے اور زور پکڑنے سے پہلے ہی کچھ خصوصی علامات کی بدولت اس موذی مرض کا پتا لگایا جا سکتا ہے اور اس سے پہلے کہ لیب رپورٹس اس کی تصدیق کریں اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔
یاد رہے کہ کینسر کا ٹیومر راتوں رات نہیں بنتا بلکہ اسے ظاہر ہونے میں مہینوں او ر بعض اوقات برسوں لگتے ہیں اور اس دوران

کینسر کے درد کے لیے ہومیوپیتھک علاج

مریض کو متعدد علامات اور شکایات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وقت ہومیوپیتھک علاج کے لیے مناسب ہوتا ہے۔
کینسر میں مبتلا مریض شدید دردوں کا شکار ہوتا ہے اور اکثر اوقت دردکش دوائیں بھی جواب دے جاتی ہیں۔ ہومیوپیتھی اس حوالے سے بھی نہایت کار آمد ہے۔ آرسنکم البم، یوفروبیم،ہائیڈراسٹس اور کونیم چند ایسی نمائندہ دوائیں ہیں جو کینسر کے درد میں جادو اثر رکھتی ہیں۔

کنیسر کیموتھراپی اور ہومیو پیتھک


جیسا کہ آپ جانتے ہیں کینسر کا مریض جب کیموتھراپی کے مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے تو اس کے شدید برے اثرات کے زیرِاثر ہوتا ہے۔کیڈمیم سلف،اپی کاک اور آرسنک البم کیموتھراپی کے برے اثرات کو زائل کرتی ہیں۔

کینسر کے علاج میں ہومیوپیتھی میں زیرِ استعمال چند دواؤں


کینسر کے علاج میں ہومیوپیتھی میں زیرِ استعمال چند دواؤں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
کارسی نوسن، آرسنکم البم۔ کیڈمیم سلف،سکرینم، تھوجا، اورم میٹ، اورم میور نیٹرونیٹم،ہائیڈراسٹس، کونیم، ہکلا لاوا،پلمبم میٹ، لیکیسس۔آسٹریس روبنس، فائیٹولاکا، مرکیورس۔گریفائٹس، فاسفورس،بیلاڈونا۔
اگرچہ یہ ایک المیہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں لوگ کینسر اور دوسری لاعلاج بیماریوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں لیکن ہومیوپیتھی کو مناسب موقع فراہم نہیں کیا جا رہا۔
ہومیوپیتھک علاج انسان دوست علاج ہے۔اسے موقع دیجیے۔

Similar Posts